اسلام آباد: ٹھٹھہ کے علاقے میں 1.4 ملین ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہوگئی ہے۔،اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر شیریں رحمان کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں پینے کا پانی نمکین ہو رہا ہے، زیر زمین پانی بھر تو رہا ہے لیکن کھارا ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ٹھٹھہ کے علاقے میں 1.4 ملین ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہوگئی ہے۔
اسلام آباد میں 13 اگست بروز ہفتہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے مارگلہ ہلز سے متعلق آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے واک کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک ہمارا قومی اثاثہ ہے، فائر سیزن میں بھی وائلڈ لائف اہلکار متحرک ہو کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا اسلام آباد دنیا کا واحد کیپٹل ہے جو اتنے بڑے نیشنل پارک کے قریب ہے۔
کراچی سرد اور ٹھنڈی ہوائیں :ساحلی پٹی پرموجود ماہی گیراور ان کی کئی کشتیاں لاپتہ
نیشنل پارک کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ درخت ہمارا قومی سرمایہ ہیں، اسلام آباد کا قدرتی حسن نیشنل پارک کے باعث ہے، اور اس حسن کو برقرار رکھنا ہماری قومی ذمہ داری ہے، مارگلہ ہلز میں گندگی پھیکنا ہماری صحت کیلئے بھی مضر ہے، درخت نہ صرف ہمیں سایہ دیتے ہیں بلکہ ہمارے ماحول کیلئے بھی اہم ہیں۔
شیری رحمان کے مطابق اس حوالے سے فوڈ سیکیورٹی کی میٹنگ بلا لی ہے، سندھ میں ٹھٹھہ کے علاقے میں 1.4 ملین ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہوگئی ہے، اس زمین پر فصلیں لگا کرتی تھی لیکن اب سمندر آگیا، فصلوں کیساتھ سندھ اور بلوچستان میں پینے کا پانی نمکین ہو رہا ہے، اسی طرح کی رپورٹ پنجاب سے بھی آئی ہیں۔
زیر زمین پانی بھر تو رہا ہے لیکن کھارا ہو رہا ہے، بدین میں تو گندم ، چاول، گنا، کھجور، آم اور یہاں تک کہ پان کی فصل لگی تھی سب ختم ہوگئی۔ ہم اس حوالے سے بھی وزارت سے بات کر رہے ہیں۔
کراچی کے ساحل پر پھنسنے والا جہاز ایک مشکل سے نکلا تو دوسری مشکل میں پھنس گیا
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سالانہ 50 ہزار ایکڑ زمین سمند ر بر د ہورہی ہے ۔اس اضافے سے اب تک بلوچستان کا 750 کلو میٹر ،سندھ کا 350 کلو میٹر ،ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں 22 لاکھ ایکڑز زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے 2050 ء تک کراچی ،ٹھٹھہ اور بدین صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔علاوہ ازیں گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کےساتھ ساتھ سمندری پھیلائو کاانتظام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ،تا کہ قیمتی املاک اور انسانی جانوںکو محفوظ کیا جاسکے ۔
کراچی کے ساحل پر پھنسا بحری جہاز شہریوں کیلئے تفریح کا سامان بن گیا
دریائے سندھ کا پانی سمندر میں نہ گرنے کی وجہ سے پانی آگے بڑھنے لگا ہے ،اس کے علاوہ یہ سمندر 35 لاکھ زمین بھی نگل چکا ہے ،سیکڑوں گوٹھ ڈوب گئے ہیں اورپانی ٹھٹھہ کے شہر جھرک تک پہنچ چکا ہے ،ساحلی پٹی پر آباد کئی بستیاں غرق آب ہوگئی ہیں ، وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے ۔ڈیلٹا میں میٹھا پانی نہ پہنچنے کے سبب ٹھٹھہ ،بدین اور سجاول کے اضلاع کو سمندر کے کھارےپانی نے تباہ وبرباد کر دیا ہے ،نہ پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اورمیٹھا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سر سبز زمینیں بھی بنجر ہوگئی ہیں ۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، دریائے سندھ کا پانی پہلے 180 ملین ایکڑ فیٹ 400 ملین ٹن مٹی کے ساتھ سمندر میں داخل ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے پانی حیدرآباد سے آگے جانے کے باعث سمندری پانی آہستہ آہستہ دریائے سندھ میں داخل ہوتا جا رہا ہے ۔