(تجزیہ شہزا قریشی)
اگر کوئی پاکستان کی تاریخ لکھ رہا ہے تو اٰسے 12 دسمبر2023 کے دن کو تاریخی دن قرار دے کر لکھنا چاہیئے ۔ آج ایک بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت سابق وزیرعظم ذوالفقار بھٹو کا کیس یعنی صدارتی ریفرنس عدالت میں زیر سماعت تھا جب کہ ایک سابقہ وزیراعظم جو اس ملک کے تین بار وزارت عظمیٰ پر رہے میاں محمد نواز شریف کا کیس بھی زیر سماعت تھا جبکہ ایک سابقہ وزیراعظم عمران خان کا بھی آج ہی کیس زیر سماعت تھا ۔ اس طرح آج ملک کے تین وزرائے اعظم جن میں ایک اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور دو وزرائے اعظم حیات ہیں۔ا ن کے کیس زیر سماعت ہیں۔ بھٹو خاندان مظلوم خاندان ہے ۔ سیاسی سفیر حیات ہیں بھٹو خاندان نے بہت زخم کھائے ، زخم کھاتے کھاتے پورا خاندان منوں مٹی تلے دفن ہو گیا ۔ لیکن آج کی سیاسی گلیاروں میں اقتدار ، اختیارات ، عہدے اور وہ سیاستدان جن کے آبائو اجداد نے 8 ستاروں پر مشتمل قومی اتحاد تشکیل دیا جس کو پی این اے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ سیاسی گلیاروں میں سیاست کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں تاریخ کے اوراق پلٹیں اور دیکھیں کے ان کے آبائو اجداد نے بھٹو جیسے عظیم لیڈر کے خلاف کس کے کہنے پر اور کس بین الاقوامی طاقت کے کہنے پر تحریک شروع کی تھی ؟
ملکی سیاست کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے وہ گل کھلائے جس سے جمہوریت بھی پناہ مانگتی نظر آئے گی۔ آج کی سیاست پر کالی و سفید دولت کا غلبہ ہے ۔ آڈیو ، ویڈیو اور سوشل میڈیا پر جو گندگی پھیلائی جا رہی ہے کیا اس سے ملک کی معیشت مستحکم ہو گی ؟ دنیا کہاں پہنچ رہی ہے ا ور کہاں پہنچ گئی ہے ۔ ایک دوسرے پر الزام در الزام کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔سیاستدانوں بالخصوص سیاسی جماعتوں کے عمائدین کو کون سمجھائے عروج اور زوال کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ اگر کوئی تاریخ سے سبق حاصل نہ کرئے تو کیا کہا جا سکا ہے ۔ آج کی سیاست کا دارو مدار ، ایک دوسرے کی مخبری ، اقربا پروری ، مفاد پرستی ، حصول اقتدار ، جاہ و جلال تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ تاہم آج کی ملکی سیاسی جماعتیں کبھی کبھی سینہ کوبی کرتی نظر آتی ہیں کہ ہمیں سچا پیار نہیں ملا ۔ بھٹو بننے کے لئے بقول اقبال ۔
ہو صداقت کے لئے جس کے دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرئے