موسم میں بڑی گھٹن سی تھی
گرم لو کا راج تھا ہر سُو ،بادل بھی آسمان کو يوں گھیرے تھے جیسے ابھی برسنے کو ہوں مگر مجال ہے جو اتنی ہمت کر
سکے اس گرمی کے آگے تو بےبس ہی ہو جیسے
پھر دل کے موسم کے ساتھ ساتھ جب باہر کا بھی موسم اس قدر پیچیدہ اور گھٹن زدہ ہو تو کیا
كہنے
کئی دنوں سے سرگوشیاں سی چل رہی تھی لوگ کچھ کبھی پُرامید اور کبھی مایوسی کے بھنور میں ڈولتے دکھائی دیتے تھے
کبھی بیٹھے بٹھائے انجانی سی خوشی میں مدھوش ہونے لگتے تو کبھی انجانا سا دُکھ منہ چرانے لگتا
اپنے حقوق کی خودمختاری کا سوچ کر دل شاد ہونے لگتا وہی اپنے گھر اپنی زمین سے الگ ہونے کا غم ستانے لگتا
بڑی ہی عجیب سی کیفیت سے دو چار تھی فضا
ایسے میں خوف کا ہر سُو طاری رہنا
حسد و نفرت میں ڈوبے خیر خواہ بھی دشمن بنے بیٹھے تھے
کئی لوگ بڑے عزیز دل کے قریب سے جن سے بڑا پیارا دل کا تعلق تھا بغیر مذہبی عقیدت کے دلوں میں احترام لیے ساتھ ساتھ رہتے اور اسی طرح سے کئی ایک دوسرے کے خون کے بھی پیاسے
صرف تعصب کی بنیاد پر جان کے دشمن ٹھہرتے
دنیا ہے رنگ رنگ کے لوگ یہاں
زلالت میں گھرے پڑے حق رائے تک کی آزادی سے محروم کچھ اور کچھ نا انصافی کے ڈسے ہوئے
کسی کو اقلیت کی مار تو کوئی اکثریت کے غرور میں اکڑے
بیروزگاری زچ کرنے کی حدوں کو بھی پار کیے ہوئے
اور کہیں عزت غیر محفوظ
تعلیم سے محروم
مذہبی تہواروں کا خون کی ہولی کھیل کے آنا اور کتنے ہی گھروں کا اُجڑ جانا ثابت ہوتا
ایسے میں ایک فرشتہ پرور کا بیڑا پار کرنے کا عزم اور محنت کتنے ہی دُکھی دلوں کی مسکراہٹ کی وجہ بنا
اُمید بنا
ایک انتظار تھا شدید انتظار کہ آج کی صبح کوئی نیا پیغام خوشی کا پیغام لانے کو ہے جیسے
گلی کے ہر ،نکڑ پہ حقا پیتے ہوئے بزرگوں کا ہجوم سا آیندہ دنوں کے تبصرے میں مصروف دکھائی دیتا
بچے آپس میں چپکے چُپکے نئے گھروندے بنانے کے منصوبے بناتے ہوئے سر گرم رہتے
بس کچھ یوں ہی گرم سے دنوں میں گرم گرم سی سر گرمیاں چلنے لگی
با ظاہر آسان دکھائی دینے والا کام انتہا کا مشکل کٹھن لگنے لگا جب الوداع کہنے کا وقت قریب آگیا
بادلوں میں بھی حبس عروج پہ آنے لگا گرم لو میں بھی اضافہ ہونے لگا سورج بھی شدت بھڑائے غروب ہونے کے قریب آگیا
ایسے میں اضطرابی میں مزید اضافہ ہونے لگا
سارا جسم گو کے کان بن کر سننے کی کوشش میں لگ گیا ہو
ہر کوئی بےچین دل اور خالی سی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگا کہ کہیں سے آزادی کے پروانے کی نوید سنائی دے
کچھ لپیٹے کچھ اٹھائے کچھ چھپائے کچھ چھوڑے ہوئے کسی پکار کے منتظر کھڑے
جیسے کسی اشارے کے ملتے ہی دوڑ پڑے گے اور مڑ کر کبھی نہیں دیکھے گے
اپنی ساری اذیتیں درد دُکھ نکال کے پھینکنے کو ہے قرار
سورج بھی ڈھل گیا
بادل بھی رنگ بدلے سُرخ سا آسمان کیے اور بھی خوف کا منظر پیش کرنے لگا
کچھ لمحوں کا انتظار دل منہ میں کھینچ کر لانے لگا کہ اچانک ہی فضاء میں
صدائے گونجنے لگی
پاکستان کا مطلب کیا
لا اللہ اِلا لا
خوشی کا ایسا منظر
دل دہلانے کو کافی تھا
مارے خوشی کے ہلچل مچ گئی گھروں کے بجائے اسٹیشن کا رخ کیا گیا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے لڑتے مرتے چلتے گئے کتنے ہی محبت کرنے والے بچھڑ گئے کتنے ہی اپنے قربان ہوتے چلے گئے مگر قافلہ چلتا رہا کارواں بنتا گیا
آزادی جیسی نایاب نعمت کو پا کر مسرور ہوئے خون کے رنگوں میں بھی مستقبل کا رنگ ذہن نشین کیے ہاتھ تھامے نئے آشیانے بسانے کو نہ روکنے والے سفر پہ قدم جمائے رہے
کتنی ہی قربانیوں کا سہرا سجائے آخر کار لاہور پاکستان کی سر زمین پہ لوٹے ٹوٹے خالی دامن کرچیوں سے بھرے دل لیے پر امید کل کے خواب لیے اُترے
اور نئی زِندگی نئی آزادی کو خیر مقدم کہا
ایسی صبح پھر نہ آئی
ہم آزاد تو ہیں مگر آزادی کے مطلب سے انجان رہے
ہم کیا جانے کہ کیسی تھی وہ ۱۴ اگست کیسی تھی وہ وطن کی چاہ
محبت
کیا تھی قربانی
کیا تھا انتظار
گلیوں میں شور مچاتے آتش بازی کی نظر ساری رات کرنے کا نام کب تھا آزادی
وقت کے ساتھ مطلب بدل گئے
قوم سے ہم قومی تعصب میں بٹ گئے
ہم آزاد ملک میں رہ کر اپنے نفس کے غلام بن گئے
ہمیں کیا معلوم آزادی کی قیمت قدر و منزلت
جذبے سے تہوار بن گیا
سجاوٹ میں دکھاوے میں نفس کے قیدی ہم
کہتے ہیں ایک دوسرے کو
آزادی مبارک
اگست 14 ۔مبارک