اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل

0
39
police

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، ترجمان اسلام آباد پولیس

، ترجمان اسلام آباد کیپٹل پولیس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے لہذا پرائیویٹ کمپنیوں، سکیورٹی گارڈز یا کسی شخص کے اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی ہے اور اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی چلاتے وقت اپنی گاڑی کاملکیتی ثبوت ساتھ رکھیں تاکہ کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے.


ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ شہری جی الیون ون اور جی ٹین ون کی طرف غیر ضروری نقل وحرکت سے گریز کریں اور شہری شناختی دستاویزات ہمراہ رکھیں اور چیکنگ کے دوران پولیس کے ساتھ تعاون کریں علاوہ ازیں شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع فوری پکار 15 پر دیں.

اس سے قبل آئی جی اسلام آباد سے آر پی او راولپنڈی، ڈی آئی جی سکیورٹی اورعمران خان کے چیف آف سٹاف سینیٹر شبلی فراز کے درمیان ملاقات ہوئی جبکہ اس میں عمران خان کی ممکنہ حاضری کے سلسلہ میں سکیورٹی انتظامات کی تفصیلات طے ہوگئیں۔ ترجمان پولیس نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے مطابق سکیورٹی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ شبلی فراز نے ایف ایٹ کی عدالتوں کو سماعت کے لئے خصوصی طور پر جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ آئی جی اسلام آباد کی طرف سے متعلقہ اداروں سے تجویز پر غور کی درخواست کی جائے گی۔ اور عمران خان کی سکیورٹی کے لئے چیف سکیورٹی آفیسر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مزید یہ بھی پڑھیں
زمان پارک،کارکن بنے عمران خان کی ڈھال،تاحال گرفتاری نہ ہو سکی
عمران خان کو کس نے کہا کہ بیڈ کےنیچے چھپ جاو؟ مریم نواز
روٹین سے ہٹ کر کردار کرنا چاہتا ہوں عثمان مختار
نور مقدم قتل کیس، ملزمان کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنایا فیصلہ
بانی ایم کیو ایم 1 کروڑ پاؤنڈ پراپرٹی کا کیس لندن ہائیکورٹ میں ہار گئے
مریم نواز بارے جھوٹی خبر پرتجزیہ کار عامر متین کو ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا گیا
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع
آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر پر حکومت کا امریکا سے بات کرنے کا فیصلہ
چیف سکیورٹی آفیسر شبلی فراز کے توسط سے لاہور میں عمران خان کی ٹیم سے رابطہ کریں گے اور چیف سکیورٹی آفیسر کا لاہور جانے کا امکان تاکہ سکیورٹی سے متعلق مزید تفصیلات طے کی جا سکیں۔ جبکہ عدالتی احکامات کے مطابق محدود افراد کو عدالتی احاطے میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔ جبکہ اس ضمن میں عدالت سے ضابطہ اخلاق کے اجراء کی درخواست کی جائے گی۔

Leave a reply