2020 میں پاکستانی معیشت کیسی رہی

باغی ٹی وی ،کرونا نے جہاں‌دنیا بھر میں اپنا اثر دکھایا وہاں پاکستان پر کی معیشت پر بھی اس کے وار جاری رہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالی سال 2021ء میں پاکستان کی معیشت کی مرحلہ وار بحالی متوقع ہے۔
یہ بات بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی پالیسی ٹریکر نامی رپورٹ میں کہی گئی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے مریض سے لے کر اب تک کی صورت حال، وبا سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات اور مستقبل کی صورت حال کی تفصیلی عکاسی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جون 2020ء میں پاکستان میں وائرس کے پھیلائو کی یومیہ شرح چھ ہزار کیسز کی بلند ترین سطح پر تھی، حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں جولائی سے نئے کیسوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوئی اور اگست اور ستمبر میں یومیہ کیسز کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو گئی۔

رپورٹ کے مطابق نومبر کے وسط سے کورونا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں اضافہ کا رحجان شروع ہوا جو تاحال جاری ہے، کوویڈ19 کے ان دھچکوں نے ملکی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے، مالی سال 2020ء کیلئے پاکستان کی اقتصادی بڑھوتری کا اندازہ منفی 0.4 فیصد لگایا گیا تھا تاہم آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ مالی سال 2021ء میں پاکستان کی معیشت کے مرحلہ وار بحالی کی راہ پر گامزن ہونے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل کے وسط سے وفاقی حکومت نے صوبوں کی مشاورت و تعاون سے لاک ڈائون میں نرمی کیلئے انتظامات کئے، موسم گرما کے اختتام تک پابندیوں میں مزید نرمی کی گئی، تعلیمی ادارے، تفریحی مقامات، ریستوران، مالز، ریٹیل آئوٹ لیٹس اور کاروبار کو معیاری حفاظتی طریقہ کار کے مطابق کھولا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے معمر افراد اور فرنٹ لائن طبی عملہ کو وائرس سے نمٹنے کیلئے ویکیسن کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے، پاکستان اضافی ویکسین کی فراہمی کیلئے تیارکنندگان اور عالمی بینک و ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے اداروں سے بھی رابطے میں ہے ، پاکستان نے اس ضمن میں 250 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی ہے۔ ویکسین کی فراہمی سال 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں متوقع ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ میں کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی حکومت کی جانب سے مالیاتی، زری و میکرو فنانشنل اقدامات کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت نے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کو وبا کے اثرات سے بچانے اور معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے 24 مارچ کو 1240 ارب روپے کا امدادی پیکج جاری کیا جس پر مکمل عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے کاروبار اور زراعت کے شعبوں کو معاونت فراہم کی گئی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ضمن میں کئی سکیمیں متعارف کرائی ہیں، ایندھن کی قیمتوں میں کمی لائی گئی جس پر 70 ارب روپے خرچ ہوئے، کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے ادویات، آلات اور سامان کی درآمد پر درآمدی ڈیوٹیاں ختم یا کم گئیں۔

اسی طرح سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو مرحلہ وار 13 فیصد سے کم کر کے سات فیصد کر دیا، ہسپتالوں میں سہولیات فراہم کرنے کیلئے قرضے فراہم کئے گئے، روزگارکے تحفظ اور کاروباری اداروں کو نئے پراجیکٹس شروع کرنے کیلئے آسان قرضہ جات فراہم کئے گئے
بعض ماہرین معیشت کے مطابق سال 2020 عوا م اور معیشت پر بہت بھاری گزرا ہے۔عوام بدحال صنعت کمزور اور زراعت زمین بوس ہو گئی ہے اور اگر موجودہ صورتحال جاری رہی توآنے والے سال میں بھی کسی بڑی تبدیلی کاامکان نہیں ہے۔عوام کے بعد سب سے زیادہ زرعی شعبہ متاثر ہوا ہے جس کی وجوہات میں کرونا وائرس، ٹڈی دل کے حملے،موسمیاتی تبدیلیاں، غلط پالیسیاں و فیصلے اور مافیا کی تباہ کاری شامل ہے۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ 2020 میںعوام کو نوکریاں دینے کا وعدہ تو پورا نہیں ہوا بلکہ کروڑوں بے روزگار اور لاکھوں کاروبار دیوالیہ ہو گئے ، مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے اور بجلی و گیس کے بلوں کی وصولی بھتہ خوری کی صورت اختیار کر گئی۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے عوام پر ٹیکس کا مزید بوجھ لادا گیا جبکہ اشرافیہ کو اربوں روپے کا ٹیکس ریلیف دینے کا سلسلہ جاری رہا۔اسی سال میں کاشتکاروں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس میں کپاس گندم اور مکئی کی فصلیںقابل زکر ہیں۔ فصلوں کی تباہی میں سرکاری اداروں نے بھی نئی اور بہتر اقسام کا بیج بنانے کے بجائے دعووں کا انحصار کر کے اپنا کردار ادا کیاجبکہ سیڈ مافیا نے کاشتکاروں کو غیر معیاری بیج کی فراہمی بڑھا دی۔

سب سے زیادہ نقصان کپاس کی فص کو ہوا جو کئی دہائیوں میں ایک ریکارڈ ہے مگر ان معاملات کو حل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہ آ سکا نہ مختلف صوبے گندم کی امدادی قیمت پر متفق ہو سکے جس کی وجہ سے اگلے سال بھی زرعی اشیاء کی درامد پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا ہو گا۔ زرعی شعبہ صنعتی و تعمیراتی صنعت سے زیادہ اہم ہے مگر اسے وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کا یہ مستحق ہے

Shares: