کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، قومیں جب ترقی کرتی ہیں تو وہ پہلے تعلیم پہ توجہ دیتے ہیں جبکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں اکثر لوگ تعلیم حاصل کرنے سے بھاگ رہے ہیں یا تو انہیں تعلیم حاصل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر تعلیمی شرح کے لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ بھی ھے۔

آج ہم بلوچستان کے پسماندہ ضلع شیرانی کی بات کریں گے۔ شیرانی صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب کی ایک تحصیل تھی۔ جوکہ اب خود ضلع بن چکا ہے۔ یہاں شیرانی قبائل کی اکثریت ہے جس سے اس کا نام پڑا ہے۔ اس کی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ تریپن ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ علاقہ کوہِ سلیمان میں واقع ہے اور سب سے اونچا مقام تخت سلیمان کہلاتا ہے۔
یہ علاقہ حضرت سلیمان، قیس عبدالرشید بیٹ نیکہ سمیت غازیوں اور شہیدوں کا بھی مسکن رہا ہے۔ یہاں مغل اور بابر حکمرانوں نے بھی پڑاو ڈالا تھا۔ کوہ سلیمان میں دنیا کا سب سے بڑا خالص چلغوزے کا جنگل ہے اور عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ سال میں یہاں سے 675 ٹن چلغوزہ برآمد کیا گیا، جس کی کل مالیت  114.7 کروڑ روپے ہے۔
بلوچستان کا ضلع شیرانی جوکہ پہلے ژوب کا حصہ ہوا کرتا تھا مگر 2006 میں اسے ایک الگ ضلع کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس ضلع کا نام وہاں کے مشہور قبیلے کے نام سے منسلک کر کے شیرانی رکھا گیا۔ ضلع شیرانی کوئٹہ کے شمال مشرق میں واقع ھے۔شیرانی کی خوبصورتی اس کے قداور پہاڑ اور درخت ہیں اور ان درخت پر اگے والا چلغوزہ ذریعہ معاش میں مدد گار ثابت ھوتا ھے ۔
بلوچستان کے شیرانی کو ضلع کا درجہ ملے پندرہ سال بیت گئےمگرعوام آج بھی انتظامی دفاتر اورعدلیہ تک رسائی کیلئے گھنٹوں کی مسافت طے کرکے ضلع  ژوب جانے پر مجبورہیں.

شیرانی تعلیم کے معاملے میں باقی اضلاع سے کافی پسماندہ ضلع ھے۔ شیرانی میں کئی سالوں سے تعلیم میں عدم دلچسپی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر کافی تحفظات ہیں۔ شیرانی 2800 کلومیٹر رقبے پر پہلا ہوا یے.ذرائع کے مطابق  ضلع شیرانی میں سکولز کی تعداد 186 ہے اور  پورے ضلع میں ایک انٹر کالج ہے جبکہ ڈگری کالجز کا تصور بھی سر ے سے موجود نہیں ۔ اتنے بڑے علاقے میں لڑکیوں کے لیے کوئی بھی سکول قریب نہیں اور نا ہی کوئی کالج اور یونیورسٹی  موجود ہے۔ تعلیم کی پیاس رکھنے والی بہت کم ہی  لڑکیاں ژوب  جاپاتی ہیں زیادہ تر کو اجازت نہیں ملتی اور وہ ساری عمر تعلیم جیسے زیور سے محروم رہتی ہیں۔ مقامی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے مگر تعلیمی درسگاہیں دور ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں وہ گورنمنٹ سے اپیل کرتی ہے کے یہاں لڑکیوں کے لیے علیحدہ سکولز,کالجز اور یونیورسٹی تعمیر کرکے مقامی لڑکیوں کی مشکلات کو آسان کیا جاۓ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلع شیرانی میں بہت سے  گھوسٹ سکولز ہیں اور بعض سکولز کی بلڈنگز اس قابل نہیں کے اس میں تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا جاۓ یہ معاملات بھی توجہ طلب ہے 21 صدی میں بلوچستان میں آج بھی ایسے کئی اضلاع ہیں جن میں خواتین تعلیم سے محروم ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کے ضلع شیرانی میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق محض ٪3 ہے۔

وزیراعلی بلوچستان اور وزیر تعلیم سے درخواست ہے ضلع شیرانی میں تعلیم پہ توجہ دی جائے اور شیرانی شہر اور دیہاتوں میں 21 ویں صدی کی جدید سہولیات سے اراستہ تعلیمی ادارے بنانے چاہئے۔ ہردیہات میں کم از کم ایک لڑکیوں کا پرائمری اسکول جبکہ شہر میں ہائی اسکول اور انٹر کالج بنانے چاہئے تاکہ شیرانی کی بہادر لڑکیاں تعلیم حاصل کرکے اپنے صوبہ اور ملک کانام روشن کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

ٹویٹر: @iHUSB

Shares: