23 مارچ کو پیدا ہونے اور وفات پانے والی چند مشہور شخصیات

1945ء احسان مانی ، آئی سی سی کے سابق صدر اور اگست 2018ء سے 27ویں چیئرمین پی سی بی
0
116
21 feb

23 مارچ کو پیدا ہونے والی چند مشہور شخصیات

1142ء المستضی بامر اللہ حسن ، خلافت عباسیہ کا (حکومت18 دسمبر 1170ء تا 27 مارچ 1180ء) 33واں خلیفہ ، مستضی کے دور میں صلاح الدین ایوبی نے دنیائے اسلام میں شہرت پائی۔ مستضی کی بیماری کے دوران ہی الناصرالدین اللہ کی خلافت کی بیعت کر لی گئی۔ (وفات: 30 مارچ 1180ء)

1749ء پِئیر سِیموں لاپلاس ، اثر انداز فرانسیسی عالِم ، جن کا کام ریاضیات، شماریات، طبیعیات اور فلکیات کی نشو و نما میں نہایت اہم تھا، انہیں فرانس کے نیوٹن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1812ء میں لاپلاس نے شماریات (Statistics) میں کئی بنیادی نظریات پیش کئے۔ انہوں نے حسابی نظام میں امکان (probability) کی بنیاد پر استقرائی منطق (Inductive reasoning) کو پیش کیا۔ (وفات: 5 مارچ 1827ء)

1853ء مظفر الدین شاہ قاجار ، فارس کے قاجار خاندان کا (1 مئی 1896ء تا 3 جنوری 1907ء) پانچواں شہنشاہ (وفات : 3 جنوری 1907ء)

1858ء لڈوگ کویڈ ، نوبل امن انعام (1927ء) یافتہ جرمن کارکن، مؤرخ اور سیاستدان ۔ جو جرمن بادشاہ وہلیم دوم پر تنقید کی وجہ سے شہرت پائی ۔ (وفات: 4 مارچ 1941ء)

1875ء سید حسین بروجردی یا سید حسین بن علی طباطبائی بروجردی ، شیعہ مجتہد ،آیت اللہ اور مرجع تقلید ، سید حسین طباطبائی کا شجرہ نسب حسن مثنی، امام حسن بن علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔ سید حسین طباطبائی 15 سال کی عمر میں دنیا کے تمام شیعوں کے اکیلے مرجع تقلید اور مجتہد تھے اور 17 سال کی عمر میں قم کے حوزہ علمیہ کے سربراہ بنے۔ (وفات: 30 مارچ 1961ء)

1876ء محمد ضیاء المعروف ضیاء گوک الپ ، ترک ماہر عمرانیات، مصنف، شاعر اور سیاسی شخصیت ، 1908ء میں انقلاب نوجوانان ترک کے بعد آپ نے گوک الپ (قہرمانِ آسمانی یا آسمانی ہیرو) کا قلمی نام اختیار کیا جو تاحیات برقرار رکھا۔ (وفات : 25 اکتوبر 1924ء)

1881ء ہرمن سٹاوڈنگر ، نوبل انعام برائے کیمیاء (1953ء) یافتہ جرمن کیمیاء دان، انجینئر و استاد جامعہ، جو پولیمر کیمیاء کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ (وفات : 8 ستمبر 1965ء)

1881ء روگر ماٹن ڈو گاڈ ، نوبل ادب انعام (1937ء) یافتہ فرانسیسی ناول نگار (وفات : 22 اگست 1958ء)

1904ء جوآن کرافورڈ ، امریکی فلمی اداکارہ، ماڈل و رقاصہ (وفات: 10 مئی 1977ء)

1907ء ڈینئیل بوٹایک ، نوبل انعام برائے فزیالوجی اور طب (1957ء) یافتہ سوئس نژاد اطالوئی طبیب، ماہرِ دوا سازی، ماہرِ اعصابیات، حیاتی کیمیا دان، ماہرِ اسپرانٹو و استاد جامعہ ، انھوں نے ایسی ادویہ تیار کی تھی جو خاص قسم کی عصبیاتی پیغام کو روکنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ (وفات: 8 اپریل 1992ء)

1910ء اکیرا کروساوا ، جاپانی ہدایتکار اور مصنف (وفات: 6 ستمبر 1998ء)

1914ء سید رئیس احمد جعفری ندوی ، صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی (1966ء) یافتہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور صحافی، مؤرخ، ماہرِ اقبالیات، ناول نگار، مترجم اور سوانح نگار ، (وفات: 27 اکتوبر، 1968ء)

1916ء ہرکشن سنگھ سُرجیت ، بھارتی کمیونسٹ سیستدان ، (1992ء تا2005ء) مارکسی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا یعنی سی پی ایم کے سابق جنرل سیکریٹری اور سیاسی رہنما (وفات: 1 اگست 2008ء)

1923ء شیخ مبارک علی ایاز المعروف شیخ ایاز ، ہلال امتیاز (1994ء) اور فیض احمد فیض ایوارڈ (1994ء) یافتہ سندھی شاعر و استاد جامعہ ، آپ کو شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اگر آپ کو جدید سندھی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ آپ مزاحمتی اور ترقی پسند شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ (وفات: 28 دسمبر 1997ء)

1924ء خواجہ معین الدین ، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی یافتہ پاکستانی ڈراما نویس جس نے اپنے ڈرامے مرزا غالب بندر روڈ پر کی وجہ سے شہرت پائی ۔ (وفات: 9 نومبر 1971ء)

1927ء پروفیسر محمد منور مرزا ، ستارہ امتیاز یافتہ پاکستانی ماہرِ اقبالیات ، محقق ، مؤرخ ، شاعر اور اردو کے پروفیسر ( وفات : 7 فروری 2000ء)

1933ء صوبیدار عبدالخالق المعروف پرندہ ایشیاء ، پاکستانی آرمی ریٹائرڈ کھلاڑی جس نے 1954ء کے ایشیائی کھیلوں میں 100میٹر کی دوڑ 10.6 سیکنڈز میں عبور کر کے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ‘فلائنگ برڈ آف ایشیا’ کا خطاب اسے جواہرلعل نہرو نے دیا۔ (وفات : 10 مارچ 1988ء)

1935ء ڈاکٹر جگتار ، بھارت سے تعلق رکھنے والے پنجابی شاعر (وفات : 3ہ مارچ 2010ء)

1945ء احسان مانی ، آئی سی سی کے سابق صدر اور اگست 2018ء سے 27ویں چیئرمین پی سی بی,1948ء وسیم باری ، پاکستانی کرکٹ کھلاڑی, 1964ء ہوپ ڈیوس ، امریکی اداکارہ, 1972ء سمرتی ملہوترا المعروف اسمرتی ایرانی ، بھارتی فلمی اداکارہ اور سیاست دان

1973ء میر واعظ عمر فاروق ، مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما جو عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ، جامع مسجد کے خطیب اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اہم رہنما بھی ہیں۔

1977ء جنید اکبر ، پاکستانی سیاستدان ، وہ (1 جون 2013ء تا 31 مئی 2018ء) قومی اسمبلی پاکستان کے رکن بھی رہے۔

1987ء کنگنا راناوت ، بھارتی فلمی اداکارہ

1990ء سونو ، بھارتی فلمی اداکارہ

1929.نصرت بھٹو کی شہرت ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی کے بطور ہے۔ اس کی اولاد بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو، اور صنم بھٹو ہیں۔ نصرت بھٹو نسلاً ایرانی صوبہ کردستان سے تعلق رکھتی ہے۔ بھٹو کو پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی سربراہ بھی رہی۔ 1996ء میں بینظیر کے حکومتی دور میں مرتضٰی کے ماروائے عدالت قتل کے بعد ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اس کے بعد مرنے تک بےنظیر کے خاندان کے ساتھ دبئی میں مقید رہی۔ 23 اکتوبر 2011 ء اتوار کو دبئی میں انتقال کر گئی.

1983ء – مصلح الدین صدیقی، (پیدائش۔ 1918ء)

23 مارچ کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات

1369ء پیٹر ، شاہ قشتالہ ، ظالم (ال ظالم) یا صرف (ال Justo) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ (1350ء تا 1369ء) کاسٹایل اور لیون کا بادشاہ تھا۔ وہ آئیوریا گھرانہ کی مرکزی شاخ کا آخری حکمران تھا۔ (پیدائش : 30 اگست 1334ء)

1827ء پئیر سیموں لاپلاس، اثر انداز فرانسیسی عالِم تھے، جن کا کام ریاضیات، شماریات، طبیعیات اور فلکیات کی نشوونما میں نہایت اہم تھا۔ وہ تمام وقت کا ایک عظیم ترین سائنس دان سمجھا جاتا ہے۔ (پیدائش : 1749ء)

1887ء نواب کلب علی خان ، ریاست رام پور کے (21 اپریل 1865ء تا 23 مارچ 1887ء) دسویں نواب رام پور ، نواب یوسف علی خان کا فرزند ، رام پورکی جامع مسجد تعمیر کروائی۔ رضا لائبریری، رام پور کو جدید طرز پر تعمیر کروایا اور رام پور میں کتابوں کا عظیم ذخیرہ جمع کیا۔ نواب کلب علی خان کو عربی اور فارسی زبان میں کافی عبور حاصل تھا اور اسلامی دنیا کے بیشتر نادر مخطوطات اُن کی سعی سے رضا لائبریری، رام پورمیں جمع کیے گئے۔ (پیدائش: 1832ء)

محمد علی محمد خان محب ، محمود آباد بھارت کے سیاستدان، شاعر اور (28 جون 1903ء تا 23 مارچ 1931ء) راجا محمود آباد (پیدائش: 4 جون 1878ء)

1959ء بدیع الزماں سعید نوری ، ترک ماہر عالم دین، صوفی و محقق (پیدائش : 1878ء)

1992ء فریڈریک آگسٹ وان ہایک ، نوبل انعام برائے معاشیات (1984ء) یافتہ آسٹریائی برطانوی ماہر معاشیات، ماہر، فلسفی، عمرانیات و استاد جامعہ ، انہیں یہ انعام سوئیڈش ماہر اقتصادیات گونر مائرڈل کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔ (پیدائش: 8 مئی 1899ء)

2011ء الزبتھ ٹیلر ، برطانوی نژاد امریکی اداکارہ، (پیدائش : 27 فروری 1932ء)

2015ء ہیری لی کوان یئو ، سنگا پوری وکیل اور سیاست دان، (3 جون 1959ء تا 28 نومبر 1990ء) وزیر اعظم سنگا پور اور (28 نومبر 1990ء تا 12 اگست 2004ء) سینئر وزیر سنگا پور ، وہ پہلے وزیراعظم سنگا پور ہیں جنہوں نے تین دہائیوں تک حکمرانی کی۔ انہیں جدید سنگاپور کا بانی مانا جاتا ہے۔ اور یہ تیسری دنیا سے واحد مثال ہے کہ صرف ایک نسل کو جدید دنیا کے مقابل لا کھڑا کیا۔ (پیدائش : 16 ستمبر 1923ء)

1843ء۔۔ہوش محمد شیدی۔ہوشو کے والد کا نام سبھاگو اور والدہ کا نام دائی تھا . اس کے بھائی کا نام نصیبو جبکہ بہن کا نام سیتاجی تھا . یہ سندھی نام ہیں جن سے ان کی سندھ سے محبت کی ایک جھلک نظر آتی ہے ہوشو کی پیدائش اور مزار کے حوالے سے متضاد رائے ہیں مگر جو سب سے زیادہ عام ہے وہ ہے کہ ہوش محمد عرف ہوشو شیدی کی پیدائش میر فتح علی ٹالپور کے گھر ہوئی کیونکہ ہوشو شیدی کی والدہ وہاں ملازمہ تھی .

ہوشو شیدی نے اپنا بچپن میروں کے گھر میں ہی گزارہ اور جب جوان ہوئے تو فوج میں بھرتی ہوگئے .ا س وقت سندھ میں تالپوروں کی حکومت تھی . اور ہوشو کا خاندان تالپوروں کا عقیدت مند اور وفادار تھا .ہوشو اپنی بہادری اور وفاداری کی وجہ سے جلد ہی فوج میں جرنیل کے عہدے تک پہنچ گیا . یہ وہ دور ہے جب میر فتح علی کا بیٹا میر صوبیدار سندھ کا حاکم تھا . سندھ کی خوشحالی دیکھ کر انگریزوں نے سندھ پر.قبضے کا منصوبہ بنایا . اس سلسلے میں انگریزوں نے تالپور حکومت میں سے چند غداروں کو ساتھ ملا کر میر صوبیدار کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور میر صوبیدار کے قریب ہوگئے جب ہوشو شیدی کو انگریزوں کی نیت پر شک ہوا اور اس نے میر صوبیدار کو انگریزوں کے منصوبے کے بارے میں بتایا تو میر صاحب نے اس پر یقین نہیں کیا. 11 جنوری 1843 کو انگریزوں نے ٹالپور حکومت پر شب خون مار دیا اور میانی کی جگہ پر پہلا معرکہ ہوا میر صوبیدار نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور انگریزوں نے جلد ہی میر صوبیدار اور دوسرے سرداروں کو قید کرلیا .ہوشو شیدی کے لیے یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی اس نے اپنے قابل اعتماد دوستوں اور بہادر سپاہیوں کو جمع کرنا شروع کردیا اور 11 مارچ 1843 کو اپنی فوج کو لیکر نکل پڑا 23 مارچ 1843 کو ہوش محمد شیدی کی فوج اور انگریزوں کی فوج کا آمنا سامنا پھلیلی واہ کے قریب ہوا ہوشو نڈر جرنیل تھا وہ نعرہ لگاتے ہوئے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں انگریز فوج کی صفوں میں گھس گیا اور اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے امر ہوگیا .

1931ء – بھگت سنگھ، برصغیر کی جنگ آزادی کی ایک مشہور شخصیت ۔بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو ضلع لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ ان کے چچا تھے۔جلیانوالہ باغ قتل عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں اسکول چھوڑ دی اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ءمیں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوے اور شاہی قلعہ لاہور میں رکھےگیے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہوگیے۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا انھوں نے اور بے کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔1928ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو گئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہو گئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبد العزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے لالہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23 مارچ، 1931ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے، ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔

Leave a reply