تین دن قبل یہ دن اتنی ہی خاموشی سے گزر گیا جتنی خاموش یہ زبان ہے، خیر اشاراتی زبان سے مراد ، جسم کے مختلف حصوں مثلاً ہاتھوں ، انگلیوں اور کندھوں وغیرہ کی مدد سے گفتگو کرنا ہے۔ گونگے افراد بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں تو وہ اشاروں کی مدد سے اپنی بات دوسروں کو سمجھاتے ہیں ۔دسمبر 2017 کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے ،2018 میں اقوام متحدہ نے پہلی دفعہ 23 ستمبر کو اشاروں کی زبان کا عالمی دن قرار دیا۔یوں تو 17 ویں صدی سے ہی مغربی دنیا میں اشاراتی زبان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔1620 میں ایک ہسپانوی پادری نے بہرے لوگوں کو اشاروں کی مدد سےتقریر سیکھانے کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ لیکن آج کے اس سائنسی دور میں ہم آج بھی بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔

ڈبلیو ایف ڈی کی جانب سے جاری کئے گئے ڈیٹا کے مطابق تقریبا 7.2 کڑور افراد دنیا بھر میں بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

سماعت سے محروم 80 فیصد افراد کا تعلق ترقی پزیر ممالک سے ہے۔ یہ لوگ مجموعی طور پر تقریباً 300 سے زائد زبانوں کی مدد سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں گفتگو کرتے ہیں۔

ڈیٹا کے مطابق” پاکستان میں تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار افراد قوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں۔ جو کہ ملک میں موجود معذور افراد کا7.4 فیصد بنتے ہیں”۔

انٹرنیشنل ڈے آف سائن لینگویجز یا اشاروں کی زبان کا عالمی دن گویائی اور سماعت سے محروم افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے منایا جاتا ہے۔ مگر صرف اظہار یک جہتی سے کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔انڈونیشیا کے شہر یوگیاکارتا میں ایک مدرسہ ہے۔ جہان کبھی بھی تلاوتِ قرآن کی آواز نہیں سنی گئی۔یہ اشاراتی زبان سمجھنے والے بچوں کے لیے بنایا گیا ایک مدرسہ ہے جہاں اشاروں کی مدد سے قرآن کی تلاوت سیکھائی جاتی ہے ۔ لیکن سوچیے پاکستان میں اشاراتی زبان سمجھنے والوں کے لیے اس اندھی قوم نے کیا گیا ہے۔ یہاں صرف انکا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ ان کو اپنے سے کم تر سمجھا جاتا ہے ۔اس اندھی قوم سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس اشاراتی زبان کی خوبصورتی تو دیکھیے۔ خاموشی اور سکوت میں سب کچھ ہی کہہ جاتی ہے۔

کہاں سے سیکھا ہے تو نے ہنر محبت کا
کلام کرتی ہے دنیا سے تیری خاموشی

اشاروں کی زبان سمجھنے والوں کے اشاروں سے یاد آیا کہ فطرت بھی تو انسان سے اشاروں میں گفت و شنید کرتی ہے۔ فطرت کے اشارے چاروں جانب پھیلے ہوئے ہیں ۔ اشاراتی زبان فطرت کے بہت قریب تر ہے ۔ جب اس ننھے سیارے پر زندگی کا آغاز ہوا ہوگا تو زبان نام کی تو کوئی شے نہیں ہو گی۔ تب بھی تو حضرت انسان نے اپنے خیالات دوسروں تک منتقل کرنے کےلیے اشاروں کا ہی سہارا لیا ہو گا۔

ہمیں سماعت سے محروم لوگوں کو معاشرے میں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اشاروں کی زبان سمجھنے والے لوگ آنکھوں پر پٹی بندھی اس قوم سے بہت سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں ۔

پاکستان کو قوت سماعت اور گویائی سے محروم افراد کےلیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

Shares: