اسرائیل نے 27 فرانسیسی اراکین پارلیمنٹ پر ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ کارروائی ان اراکین کے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورہ سے دو دن قبل کی گئی ہے۔ اتوار کو مقامی حکام کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ان اراکین پارلیمنٹ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ایک بار پھر اسرائیل پر اپنے جنگی جرائم چھپانے کے الزامات لگنے شروع ہو گئے ہیں۔
نیوز ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق، اس گروپ میں فرانسیسی بائیں بازو، ماحول دوست اور کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد اس دورے کے ذریعے بین الاقوامی تعاون اور امن کے فروغ کی کوشش کرنا تھا۔یروشلم میں فرانسیسی قونصلیٹ نے ان اراکین پارلیمنٹ کو پانچ دن کے سرکاری دورے کے لیے بلایا تھا۔ لیکن اسرائیل کی داخلی وزارت نے ان کا ویزا ایک خاص قانون کے تحت منسوخ کر دیا۔ اس قانون کے مطابق حکومت کو ایسے افراد کو ملک میں آنے سے روکنے کا اختیار حاصل ہے جنہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔
ویزا منسوخ کیے گئے اراکین پارلیمنٹ میں نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی، فرینکوئس رفِن، الیکسس کاربیئر، جولی اوجین، کمیونسٹ ڈپٹی سومیہ بوروہا اور سینیٹر میرین مارگیٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میئر اور دیگر مقامی افسران بھی شامل تھے۔ ان اراکین پارلیمنٹ اور افسروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اس اقدام کو "اجتماعی سزا” اور "سفارتی تعلقات میں دراڑ قرار دیا ہے۔انہوں نے فرانسیسی صدر ایمنوئل میکرون سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے پر فوری ردعمل ظاہر کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ اسرائیل اپنا فیصلہ واپس لے۔ اراکین پارلیمنٹ نے یہ بھی کہا کہ ان کی سیاسی جماعت طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کی حمایت کر رہی ہے، جیسا کہ حال ہی میں صدر میکرون نے بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس جون میں ہونے والی بین الاقوامی چوٹی کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس مہینے کی شروعات میں اسرائیل نے تل ابیب ہوائی اڈے پر دو برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو بھی ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اس اقدام کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کی پالیسی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر تنقید کی جا رہی ہے۔