لاو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کہ مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
میر محبوب علی خان آصف
تاریخ وفات: 29 اگست 1911
اردو کو سب سے پہلے اپنی سلطنت کی سرکاری زبان بنانے والے حکمران اور نامور شاعرنظام الملک حیدرآباد ۔۔میر محبوب علی خان آصفؔ جا ششم
میر محبوب علی آصف خان 17 اگست 1866 میں پیدا ہوئے۔۔انہیں 884 میں مکمل اختیارات کے ساتھ قلمرو آصفی کا حضور نظام تسلیم کر لیا گیا۔حیدر آباد میں سرکاری زبان انہیں کے دور 1884 ء میں فارسی سے اردو کر دی گئی۔
میر محبوب علی خان آصفؔ تخلص کرتے تھے، وہ داغ دہلوی اور حضرت جلیل مانک پوری کے شاگرد تھے۔موصوف و جملہ اصناف سخن پر قدرت حاصل تھی۔غزلیات کے علاوہ ‘تعلیم’ اور ‘اصلاح فوج’ وغیرہ کے متعلق انہوں نے بہت سی اخلاقی نظمیں کہی ہیں۔غزلوں میں جگہ جگہ اخلاق کا درس ملتا ہے مثلاً ان کے یہ دو مقطعے۔۔
آصف کو جان ومال سے اپنے نہیں دریغ
گر کام آئے خلق کی راحت کے واسطے
آصفؔ کا ہے یہ قال سنہیں صاحب غیرت
احسان نہ لے ہمت مردانہ کسی کا
اعلیٰ حضرت شاہالعلوم آصفؔ نے تغزل میں بھی بڑے اچھے اشعار کہے ہیں
کبھی نہ دب کے لیں گے ہم ان سے آصف
وہ شاہِ حسن سہی، شہر یار ہم بھی ہے
لو اور سنوکہتے ہیں وہ دیکھ کر مجھکو
یہ شخص بلا شبہ ہے دیوانہ کسی کا
نہیں ہے اگر تو ہماراتو کیا ہے
زمانہ میں کوئی کسی کا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِمحضر لگی ہوئی
یہ شعرفیض کا نہیں۔ فیض صاحب نے اس شعر کی صرف تظمین کی ہے۔ تظمین کا مطلب ہے کہ کسی اور شاعر کے مصرع یا پھر مکمل شعر کو اپنی نظم یا غزل کا حصہ بنا لینا۔یہ شعر نظام ششم نواب محبوب علی خاں والی حیدر آباد کا ہے۔ 1900ءکے لگ بھگ ریاست کے چند اعلیٰ افسران نے ان کے خلاف ایک سازش تیار کی۔ یہ اطلاع ملنے پر انہوں نے متعلقہ کاغذات طلب کئے کہ دیکھیں کن کن لوگوں نے اس سازش میں حصہ لیا ہے اور یہ مصرع کہا ”لاﺅ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں۔ بعد کو اس مصرع پر دوسرا مصرع لگا کر شعر پورا کر دیا۔
29 اگست’ 1911 میں اردو کے اس محسن اعظم نے رحلت پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کلاسک سے ماخوذ
ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی