29 فروری کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات

ممتاز قادری کو 29 فروری2016ء کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی
0
78

29 فروری کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات

1980ء – یگال آلون، اسرائیلی جنرل اور سیاستدان۔یگال اسرائیل ڈیفنس فورسز کا ایک جنرل اور اسرائیل کا قائم مقام وزیر اعظم تھا۔

٭1968ء۔۔۔پاکستان کے نامور طبلہ نواز استاد اللہ دتہ نے کراچی میں وفات پائی اور علی باغ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ 1908ء کے لگ بھگ سیالکوٹ کے ایک گاؤں بہاری پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحیم بخش سارنگی نواز تھے۔ استاد اللہ دتہ نے کم عمری میں طبلہ بجانا شروع کردیا تھا ان کے اس شوق کو جلابخشنے میں ان کے استاد، استاد قادر بخش کا بڑا اہم کردار تھا۔ استاد اللہ دتہ نے طبلہ بجانے میں بڑے کمالات پیدا کئے۔ وہ جتنا اچھا طبلہ کسی کی سنگت میں بجاتے تھے اتنا ہی اچھا طبلہ اکیلی پرفارمنس میں بجاتے تھے وہ بیان، گت اور پرت سب میں یکساں اختصاص رکھتے تھے۔ انہیں طبلہ نوازی میں ان کے عبور کی وجہ سے ’’پری پیکر‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔

1992ء۔۔محبہ انونو (22 ستمبر 1897ء) 11 نومبر 1938ء سے لے کر 27 مئی 1950ء تک اپنے شوہر عصمت انونو کی صدارت ترکیہ کے دوران میں ترکی کی خاتون اول تھیں وہ 22 ستمبر 1897ء کو استنبول کے ضلع فاتح کے محلہ سلیمانی میں پیدا ہوئیں۔ اس کے والد تپ دق (سل) کی وجہ سے انتقال کر گئے جب وہ تین سال کی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس کا بھائی بھی فوت ہو گیا۔ خاندان میں ہونے والے نقصانات کے بعد، محبہ کی ماں اس کے ساتھ دادا کے گھر چلی گئی، جہاں اس کی پرورش ہوئی۔ خاندان کے فیصلے کی وجہ سے اس نے پہلی جماعت کے بعد سیکنڈری اسکول چھوڑ دیا۔اس نے 13 اپریل 1916ٰء کو سلطنت عثمانیہ کی فوج کے کرنل (عثمانی ترک زبان: میرالے) کے ایک افسر مصطفی عصمت انونو سے شادی کی۔ 21 دن بعد اس کے شوہر پہلی جنگ عظیم کے مشرق وسطیٰ کے محاذ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدۂ مدروس کے اختتام کے بعد ہی گھر واپس آئیں۔ جوڑے کا پہلا بیٹا 1919ء میں پیدا ہوا تھا۔ مصطفیٰ عصمت 1920ء میں ترکی کی جنگ آزادی میں شامل ہونے کے لیے اناطولیہ گئے تھے۔ ایک افسر کی شریک حیات ہونے کے ناطے، جسے عثمانی انتظامیہ نے قومی مزاحمت میں ملوث ہونے کی وجہ سے موت کی سزا سنائی تھی، محبہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اپنے شوہر کے آبائی شہر مالاطیہ چلی گئیں اور برسوں وہیں رہیں۔ جدوجہد کے دور میں 1921ء میں اس کے بیٹے ایزیٹ کا انتقال اس دوران ہوا۔10 نومبر 1938ء کو ترکی جمہوریہ کے بانی اور پہلے صدر، مصطفٰی کمال اتاترک کی وفات کے بعد، مصطفٰی عصمت انونو اگلے دن صدر منتخب ہوئے۔ محبہ انونو اس کے بعد ترکی جمہوریہ کی دوسری خاتون اول کی حیثیت سے سرکاری صدارتی رہائش گاہ میں منتقل ہوگئیں، جہاں وہ 27 مئی 1950ء تک رہیں۔

1996ء۔۔شمس پہلوی پہلوی خاندان کی ایک ایرانی شہزادی تھی، جو ایران کے آخری شاہ محمد رضا پہلوی کی بڑی بہن تھی۔ اپنے بھائی کے دور میں وہ ریڈ لائین اینڈ سن سوسائٹی کی صدر تھیں۔شمس پہلوی 28 اکتوبر 1917ء کو تہران میں پیدا ہوئیں وہ رضا شاہ اور ان کی تدج الملوک کی بڑی بیٹی تھیں۔جب 1932ء میں تہران میں دوسری مشرقی خواتین کی کانگریس کا اہتمام کیا گیا تو شمس پہلوی نے اس کی صدر اور صدیقہ دولت آبادی نے اس کی سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔8 جنوری 1936ء کو، انھوں نے اور ان کی والدہ اور بہن نے کشف حجاب (پردے کے خاتمے) میں ایک اہم علامتی کردار ادا کیا جو تہران ٹیچر کالج میں گریجویشن کی تقریب میں شرکت کرکے خواتین کو عوامی معاشرے میں شامل کرنے کی شاہ کی کوششوں کا ایک حصہ تھا۔ شمس پہلوی نے 1937ء میں اپنے والد کے سخت حکم کے تحت ایران کے اس وقت کے وزیر اعظم محمود دجام کے بیٹے فریدون دجم سے شادی کی، لیکن یہ شادی ناخوشگوار رہی اور رضا شاہ کی موت کے فوراً بعد دونوں نے طلاق لے لی۔ 1941 ءمیں ایران پر اینگلو سوویت حملے کے بعد رضا شاہ کی معزولی کے بعد، شمس اپنے والد کے ساتھ جلاوطنی کے دوران میں پورٹ لوئس، ماریشس اور بعد ازاں جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ گئیں اور اس سفر کی اپنی یادداشتیں ماہانہ قسطوں میں1948ء میں اخبار میں ایٹیلا میں شائع کیں۔مہرداد پہلوبڈ سے دوسری شادی کے بعد وہ مختصر مدت کے لیے اپنے عہدوں اور اعزازات سے محروم رہی اور 1945ء سے 1947ء تک امریکا میں مقیم رہیں۔ بعد میں، عدالت کے ساتھ مفاہمت ہو گئی اور آبادان بحران کی ہلچل کے دوران یہ جوڑا صرف تہران واپس آیا۔ انھوں نے 1940ء کی دہائی میں رومن کیتھولک مذہب اختیار کیا۔ شہزادی شمس کو شاہ کے بہترین دوست ارنسٹ پیرون نے کیتھولک مذہب اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کے بعد اس کے شوہر اور بچوں نے کیتھولک مذہب اپنایا۔1953ء کی بغاوت کے بعد ایران واپس آنے کے بعد، انھوں نے اپنے بھائی کی حکومت کو دوبارہ قائم کیا، انھوں نے اپنی بہن شہزادی اشرف پہلوی کے برعکس عوامی سطح پر خود کو کم رکھا اور اپنی سرگرمیوں کو باپ سے ملنے والی وراثت میں وسیع دولت کے انتظام تک محدود رکھا۔1960ء کی دہائی کے اواخر میں، اس نے فرینک لائیڈ رائٹ فاؤنڈیشن کے معماروں کو کارج کے قریب مہرشہر میں موروارڈ محل اور مازندران کے چلوس میں ولا مہرفرین کی تعمیر کے لیے کمیشن دیا۔وہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران چھوڑ کر امریکا چلی گئیں اور 29 فروری 1996ء کو اپنی سانتا باربرا اسٹیٹ میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔

2000ء۔۔عارف نکئی ایک پاکستانی سیاست دان تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے۔وہ نکئی مثل کے معزز جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پردادا سردار ایشر سنگھ نکئی پیدائشی سکھ تھے جنھوں نے سنہ 1879ء میں اسلام قبول کیا تھا۔عارف نکئی 29 فروری 2000ء کو لاہور میں فوت ہوئے تھے اور آبائی گاؤں واں آدھن میں دفن ہیں

2016ء – ممتاز قادری یکم جنوری 1985 کو پیدا ہوئے تھے۔ان کا یوم شہادت 29 فروری 2016 ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ممتاز قادری کو 01 اکتوبر2011 کو تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دومرتبہ موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھے اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھے ۔انہوں نے گورنر کو 04 جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س مجرمہ سے شیخوپورہ جیل میں ملاقات کی تھی اوراس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے سزا معاف کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ گورنر نےتوہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز قادری کی اپیل پر قتل کے مقدمے میں سزائے موت کو برقرار جبکہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت دی جانے والی موت کی سزا کو کالعدم قرار دیا ۔06 اکتوبر 2015 کو سپریم کورٹ نے ممتاز قادری پر دہشت گردی کی دفعات بھی بحال کردیں جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ختم کالعدم قرار دیا تھا ۔14 دسمبر 2015 کو سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے 2 مرتبہ موت کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا۔

اس کے بعد ممتاز قادری کے اہل خانہ نے صدر ممنون حسین سے انصاف کی اپیل کی اس لیے کہ ممتاز قادری نے ایک توہین رسالت کے مجرم جو اسلام میں واجب القتل تھا کو قتل کیا ہے لہذا اسلامی ریاست کے سربراہ کی حثیت سے صدر مملکت ممتاز قادری کو انصاف فراہم کریں لیکن یہ اپیل رد کر دی گئی۔ اپیل پر فیصلہ دینے سے پہلے ان کی سیکیورٹی بڑھادی گئی تھی۔ممتاز قادری کو 29 فروری2016ء کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔جیل حکام کے مطابق ممتاز قادری کو اتوار اور پیر کی درمیانی رات پھانسی دی گئی۔پھانسی کے وقت اڈیالہ جیل جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔ پھانسی دینے والے شخص کو خصوصی گاڑی کے ذریعے اتوار کی شب لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ عموماً پھانسی دینے والے جلاد کو دو دن پہلے آگاہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس جیل میں قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہے۔ پھانسی گھاٹ میں موجود لو گوں کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری پھانسی کے وقت حالت روزہ میں تھا اور تختہ دار پر لٹکتے ہوئے اس کی زبان پر درود سلام جاری تھا۔نماز جنازہ یکم مارچ 2016 کو 4 بجے لیاقت باغ میں ادا کی گئی جس میں ایک اندازے کے مطابق کئی لاکھ افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی امامت علامہ سید حسین الدین شاہ ص، مہتمم جامعہ رضویہ ضیاء العلوم ،راولپنڈی ، سرپرست اعلیٰ تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان نے کرائی۔ جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے باوجود کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ سامنے نہیں آیا۔

2020ء۔۔محمد علی رمضانی دستک ایک ایرانی سیاست دان تھے جو 2020ء کے انتخابات میں مجلس ایران (ایرانی پارلیمان) کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ ایران عراق جنگ میں بھی شریک رہے تھے۔ 29 فروری 2020ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی موت کی وجہ متنازع ہے۔ ایرانی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ انفلوئنزا تھا تاہم دیگر ذرائع بشمول برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) کے مطابق ان کی موت کی وجہ کورونا وائرس تھا

Leave a reply