ہم نے اکثر یہ جملہ سنا ہے کہ "فطرت کبھی نہیں بدلتی” یہ جملہ ایک حقیقت ہے۔ اس جملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی انسان کی فطرت نہیں بدلتی دوسرا یہ کہ فطرت خود اپنے آپ کو نہیں بدلتی مطلب اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ ایسے بہت سے فطرت کے قوانین ہیں جو کبھی نہیں بدلتے بلکہ موقع ملتے ہی نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں جو فطرت کے مطابق چلتے ہیں تو فطرت بھی ان کو آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ اور جو اس کے مطابق نہیں چلتے پھر فطرت ان سے انتقام لیتی ہے۔ آج میں فطرت کے تین ایسے قوانین کا ذکر کروں گا جو کڑوے ضرور ہیں مگر ایک اٹل حقیقت ہیں۔

پہلا قانون فطرت:
اگر ہم کسی کھیت میں دانہ نہ ڈالیں تو قدرت اسے "گھاس پھوس” سے بھر دیتی ہے.
بالکل اسی طرح اگر ”دماغ” کو اچھی سوچوں سے نہ بھرا جائے تو کج فکری اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف الٹے سیدھے خیالات آتے رہتے ہیں اور وہ شیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ پھر اس سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اس لیے ہمیشہ اچھی اور مثبت سوچوں کو ہی دماغ میں جگہ دی جائے اور فضول خیالات سے بچا جائے۔ کیونکہ فضول سوچوں سے شیطان حملہ آور ہوجاتا ہے اور انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اچھی سوچوں سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ جتنا آپ برا سوچیں گے اتنا ہی پریشان اور مصیبت میں مبتلا ہوں گے لٰہذا اچھا سوچیں اور خوشحال زندگی گزاریں۔

دوسرا قانون فطرت:
جس شخص کے پاس "جو کچھ” ہوتا ہے وہ "وہی کچھ” بانٹتا ہے۔
* خوش مزاج انسان خوشیاں بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان غم بانٹتا ہے۔
* ایک عالم علم بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان دین بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان خوف بانٹتا ہے۔
* محبت کرنے والا انسان محبت بانٹتا ہے۔
* نفرت کرنے والا انسان نفرت بانٹتا ہے۔
* دانا انسان دانائی بانٹتا ہے۔
غرضیکہ جس کے پاس جو کچھ ہوگا وہ وہی بانٹے گا کیونکہ اس کے پاس دینے کے لیے وہی کچھ ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیئے کہ اچھا بننے کی کوشش کریں اور ہمیشہ اچھائی بانٹیں۔ اپنی بری عادتوں کو چھوڑنے کی کوشش کریں جنتا ہوسکے دوسروں کا بھلا کریں۔ ہمارا کردار ہی ہماری پہچان ہوتا ہے۔

تیسرا قانون فطرت:
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم” کرنا سیکھیں اسی میں ہماری بھلائی ہے کیونکہ اگر۔۔۔
* کھانا ہضم نہ ہو تو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
* مال و ثروت ہضم نہ ہو تو ریاکاری بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہو تو چغلی اور غیبت بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہو تو غرور میں اضافہ ہوتا ہے۔
* مذمت ہضم نہ ہو تو دشمنی بڑھتی ہے۔
* غم ہضم نہ ہو تو مایوسی بڑھتی ہے۔

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر
غم کے سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم حقیقت کا کھلے دل سے سامنا کریں بعض لوگ حقیقت سے انکار کرتے نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی دانائی ہے۔ جس حال میں بھی ہوں اللّٰہ کا شکر ادا کریں۔ بعض لوگ ہمیشہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے حالات ایسے کیوں ہیں۔ کیا ساری مصیبتیں اور پریشانیاں ہماری قسمت میں ہی لکھی ہوئی ہیں۔ جس طرح کے حالات ہوں ان کے مطابق چلنا سیکھیں۔

وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے

مولانا رومی صاحب کا قول ہے کہ "پرسکون وہ ہے جسے کم یا زیادہ کہ فکر نہیں”۔ ہر حال میں شکر ادا کرنا اپنی عادت بنالیں۔ شکوہ ظلمت سے بہتر ہے کہ کوئی دیپ جلائیں۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی کو آسان بنائیں۔ خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔ جتنا ملے اس پر راضی ہوجائیں۔ اپنے عمل سے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ حقیقی فاتح وہی ہوتا ہے جو لوگوں کے دل جیتنا جانتا ہے۔ جو شخص قدرت پر راضی ہوجائے پھر قدرت بھی اس کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور آسانیاں پیدا فرمائے۔۔۔آمین

@Rumi_PK

Shares: