پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفیٰ کھر کا دل یقیناً اس وقت دھڑکنا بھول گیا ہو گا جب انھوں نے جی ٹی روڈ پر لاہور اور راولپنڈی کے درمیان آدھے راستے میں آنے والے کھاریاں کینٹ کے قریب ایک مقام پر ٹینکوں کا پورا دستہ کھڑے ہوئے دیکھا ہو گا۔ یہ حقیقت تو سب جانتے ہیں کہ گورنر کھر بزدل شخص نہیں لیکن یہ کوئی عام صورتحال نہیں تھی جس سے اس وقت وہ دوچار تھے۔آرمی اور فضائیہ کے سربراہان کو صدر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر ایوان صدر راولپنڈی سے گورنر ہاوس لاہور لے جایا جا رہا تھا

وہ ایک سرکاری مرسیڈیز بینز چلا رہے تھے جس کی پچھلی نشست پر پاکستان آرمی کے آخری کمانڈر ان چیف جنرل گل حسن خان اور پاکستان فضائیہ کے کمانڈر ان چیف ائیر مارشل رحیم خان بیٹھے تھے جبکہ جنرل گل حسن کی پسلی سے وفاقی وزیر غلام مصطفی جتوئی کے پستول کی نالی ٹکرا رہی تھی۔

مرسیڈیز کے اندر ماحول بہت ہی پراسرار تھا، یہ اس اجلاس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا تسلسل تھا جو دونوں فوجی سربراہان کی صدر بھٹو سے ایوان صدر راولپنڈی میں ہوئی تھی اوردونوں فوجی سربراہان کو ان کے استعفوں کا تحریری مسودہ تھماتے ہوئے حکم ملا تھا کہ ان پر دستخط کر دیں۔

دستخط کے بعد بھٹو نے اپنے بااعتماد سیاسی ساتھیوں غلام مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی سے کہا کہ دونوں فوجی سربراہان کو اپنے ہمراہ لاہور لے جائیں جہاں آنے والے چند دن تک انھیں محفوظ حراست میں گورنر ہاوس میں ہی رکھا جائے۔

یہ واقعات جنرل گل حسن خان نے اپنی یاداشتوں میں درج کیے ہیں جن میں وہ بھٹو کے ان سیاسی ساتھیوں کو ’ہائی جیکر‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم جنرل گل حسن نے اپنے ساتھ بیتے ان واقعات کو قلم بند کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی کہ ان دونوں فوجی سربراہان کو ان کی مرضی کے خلاف لاہور لیجایا جا رہا تھا۔

جنرل گل حسن ان واقعات کو اپنی یاداشتوں میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’لاہور کے بیچ راستے میں اس وقت گاڑی کی رفتار یکدم مزید تیز ہو گئی تھی جب کھر (جو مرسیڈیز چلارہے تھے) کی نظر سڑک کنارے کھڑے چند ٹینکوں پر پڑی۔ یہ دیکھ کر ایک یا دو لمحے کے لیے کھر کے دل کی دھڑکن یقینا رُک گئی ہو گی۔ ان کو شک گزرا ہو گا کہ (کھاریاں میں موجود) ایک آرمرڈ ڈویژن گدی نشینوں کی بھرپور مدد سے ان کو گھیرنے کے لیے تاک لگائے موجود ہے

3 مارچ 1972، اتوار کی شام تھی جب بھٹو آرمی اور فضائیہ کے سربراہان پر سخت غصے میں تھے کیونکہ ان دونوں نے ہڑتال کرنے والی پولیس کی جگہ آرمی اور فضائیہ کو تعینات کرنے کے ان کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ بھٹو نے آرمی اور فضائیہ کے سربراہان کو ملاقات کے لئے ایوان صدر طلب کیا۔

بھٹو نے گل حسن اور ائیر مارشل رحیم پر برہمی کا اظہار کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت غلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو اور اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل اکبر خان بھی اس موقع پر موجود تھے۔جنرل گل حسن نے اپنی یاداشتوں میں ایوان صدر میں ہونے والی اس ملاقات کا پورا حال کھل کر بیان کیا ہے جس میں انھوں نے استعفیٰ دیا تھا۔ حتیٰ کہ انھوں نے شرکا کے مکالمے تک نقل کیے ہیں۔

بھٹو نے بات کا آغاز کیا کہ ’میں لگی لپٹی رکھے بغیر صاف بات کروں گا۔ ہم ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے تازہ ترین پولیس کی ہڑتال ہے۔ آرمی اور فضائیہ دونوں نے حکومت کی مدد سے انکار کر دیا ہے۔ میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ ہم مزید آگے نہیں چل سکتے۔ آرمی اور فضائیہ کی طرف سے کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا اور میں اس صورتحال میں حکومت چلانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘

Shares: