40 لاکھ کی گاڑی پر 12 لاکھ ٹیکس کیوں؟ قائمہ کمیٹی نے کیا جواب طلب
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابققومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کی ذیلی کمیٹی نے حکومت اور کار مینوفیکچررز کے درمیان معاہدے طلب کرلئے ،
کمیٹی نے ایف بی آر سے 3 سالہ ٹیکس ریکارڈ اور فنانشل سٹیٹمنٹ بھی طلب کرلی جبکہ ایس ای سی پی کو کار مینوفیکچررز کا سپیشل آڈٹ کرانے کی سفارش کی ہے ۔
ذیلی کمیٹی کا اجلاس ریاض الحق کی صدارت میں گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کمیٹی کو گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں نے انہیں بتایا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسز بڑھنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔
انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کچھ ٹیکسز لگائے گئے ہیں جن کی ای ڈی بی نے مخالفت کی تھی، 40 لاکھ کی گاڑی پر 12 سے 14 لاکھ روپے تک ٹیکسز ہوتے ہیں، 17 فیصد جی ایس ٹی اور 5 فیصد ایف ای ڈی نافذ ہے ، خام مال پر بھی ٹیکس اسی تناسب سے دیا جاتا ہے ، ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے ہی قیمتوں کے اضافہ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔
چیئرپرسن مسابقتی کمیشن راحت کونین نے کمیٹی کو بتایا کہ کار مینو فیکچررز کو پاکستان میں آئے ہوئے 37 سال ہوچکے ہیں، اس دوران انڈسٹری میں کوئی جدت نہیں لائی گئی، اب وقت آگیا ہے کہ گاڑیوں کی مارکیٹ کو کھولا جائے ، کار مینو فیکچررز کا ایس ای سی پی سے سپیشل آڈٹ کرایا جائے ، کار مینو فیکچررز کے خلاف گٹھ جوڑ کی زیرالتوا انکوائری کو 3 سے 6 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا، کار مینو فیکچررز نے بہت منافع کما لیا ہے ، انہیں کافی تحفظ دیا گیا ہے ۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ کار مینو فیکچررز کے معاہدے پیش کئے جائیں، ایف بی آر گاڑیوں پر 2018 سے پہلے اور بعد میں لگائے گئے ٹیکسز کا موازنہ اور کار مینوفیکچررز کے سالانہ گوشواروں کی تفصیلات پیش کرے ۔
گاڑیوں کی بڑھتی قیمتوں، معیار، گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر قائمہ کمیٹی کا تشویش کا اظہار