سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ : اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا، لہذا ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔
چیف جسٹس کے ریمارکس کے مطابق: ایسا حکم دیں گے کہ ٹرائل بھی نہ رکے اور توہین عدالت کرنیوالوں کیخلاف کاروائی بھی چلتی رہے۔
عدالت عالیہ نے نیب سے ملزمان کی فہرست اور ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کیں۔
گزشتہ بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ای او بی آئی غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کیس میں توہین عدالت کے معاملہ کی سماعت کی ۔
ایک رپورٹ کے مطابق: سماعت کے دوران جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ : عدالت کو دی گئی رپورٹ میں ملزمان کی مکمل فہرست شامل نہیں۔
تاہم اسی دوران جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا: نیب ریفرنس کی کیا صورتحال ہے؟ تقرریاں تو 2009 ءسے شروع ہوئی تھیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا: سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ستمبر 2011ء سے مئی 2012 ء کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں.
اور سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے۔