ففتھ جنریشن وار اور مینار پاکستان کا واقعہ تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
50

مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ ہجوم کی بد تمیزی سے ہم پر بطور معاشرہ کئی سوالات اُٹھ گئے ہیں۔
اس عائشہ نامی لڑکی اور نور مقدم کیس میں کئی مماثلات ہیں۔
دونوں لڑکیاں متنازعہ بیک گراونڈ کی تھیں۔
دونوں مشرقی اور اسلامی روایات کی پاسداری نہ کرنے والی آزاد خیال خواتین تھیں۔
نور مقدم تو دنیا سے چلی گئی،اُس پر زیادہ بات کرنا بھی ہماری روایات کے خلاف ہو گا۔
نور مقدم کیس میں ملوث درندے ،مجرم اور قاتل کو عبرتناک سزا کادیا جانا بہت ضروری ہے۔
جس وحشیانہ طریقے اور بر بریت سے اس خاتون کو قتل کر کے اسکا سر تن سے جدا کیا گیا۔
اسکی مہذب معاشروں تو کیا جنگل کی دنیا میں بھی کوئ مثال نہیں ملتی۔
مینار پاکستان والے کیس میں لڑکی کے متنازعہ کردار پر بہت سے سوالات اُٹھاۓ جا رہے ہیں۔
ایک تو یہ کہ وہ وہاں رش اور بھیڑ والے دن ٹک ٹاک وڈیو بنانے کیوں آئ؟
دوسرا یہ کہ اس نے بھارتی جھنڈا اُٹھا رکھا تھا،تاہم اس بات کی تصدیق پاکستان میں آزاد زرائع سے تو نہیں ہو سکی مگر ہمارے کچھ اندرونی دشمنوں کی وساطت سے بھارت تک جا پہچی ،
جسے بھارتی میڈیا نے مرچ مصالحہ لگا کر خوب اُچھالا۔
لڑکی پر تیسرا اعتراض یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ اس نے نامناسب لباس پہن رکھا تھا۔
لڑکی پر لگاۓ گئے اعتراضات پر متفق ہونے کے بعد بھی کیا ان لوگوں کے گھناؤنے کام کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح وہ ایک لڑکی پر جھپٹ پڑے۔
کیا ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ لڑکی کو لوٹ مار کا مال سمجھ کر اس پر کتوں کی طرح ٹوٹ پڑیں
انہیں اس بر بریت کی معافی کبھی بھی نہیں دی جا سکتی۔
کون کس طرح کا لباس پہنتا ہے۔کون کس طرح کا کام کرتا ہے۔
اس کو دیکھنا لوگوں کا کام نہیں تھا۔
اگر ان سب کو لڑکی کا وڈیو بنانا برا لگا تھا تو اسے لعن طعن کرتے۔
اسے اس جگہ سے دفع دور ہونے کا کہہ دیتے۔
مگر اُن کے لئے تو لڑکی کو دبوچنا ضروری تھا،جو انہوں نے کیا۔
اگر اس قسم کے فیصلوں کی اجازت لوگوں کو دے دی گئی تو معاشرے میں پھیلےجاہل لوگ عام آدمی کا جینا دشوار کر دیں گے۔
عورتوں کا گھروں سے نکلنا دشوار ہو جاۓ گا۔
اس واقعہ کو اقرار سید اور شامی نامی لڑکے نے سستی شہرت کے لئے استعمال کیا،جبکہ اقرار نے تو ہمیشہ کی طرح سارا ملبہ پاکستان پر بطور ملک ڈال دیا،
تاکہ بھارت جسے وہ پاکستان سے بہتر سمجھتا ہے،
خوش ہو اور بھارت خوش ہوا بھی۔
بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے،وہ تو موقع کی تاک میں رہتا ہے۔
اور اسے ایسے مواقع اقرار جیسے بندے اور ڈان جیسے اخبار گاہے بگاہے فراہم کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ہر پہلو کو دیکھنا ہو گا۔ہمیں ہر زاویے سے پرکھنا ہو گا کہ کون کہاں پر غلط تھا۔
اسی واقعہ میں جس طرح ہجوم نے لڑکی کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا،اُسکی جان بھی جا سکتی تھی۔
آپ سوچیں کہ اگر اس واقعے میں خدانخواستہ اس لڑکی کی جان چلی جاتی تو کیا ہوتا؟
ایک تو یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہوتا
دوسرا بین الاقوامی میڈیا اسے جس بری طرح ہمارے ملک کے خلاف استعمال کرتا،
وہ سوچنا بھی محال ہے-
ہم تو پہلے ہی اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔
کوئ ایسا وقت نہیں،جب ہمارے خلاف سازشوں کے تانے بانے نہ بُنے جا رہے ہوں۔
ایسے میں ہم اس طرح کے بے مقصد واقعات کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں؟
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہچے بغیر کوئ نتیجہ اخذ مت کریں۔
کڑی سے کڑی ملنے کا انتظار کریں تاکہ بعد میں اپنے لکھے گئے الفاظ اور کہی گئی بات پر شرمندگی نہ ہو۔
اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
شروع میں ہی کچھ لوگوں نے صرف ہجوم میں شامل ملزمان کو اپنا نشانہ بنایا۔بعد میں لڑکی کا کردار بھی کچھ مشکوک نظر آنے لگا،
جس سے یہ تاثر ملنے لگا کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا،
جس کا مقصد شہرت اور فالوورز کا حصول تھا۔
آجکل فالوورز اور ریٹننگ کے حصول کے لئے بھی ایسےایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
لہذا فیصلہ کرنے میں کبھی بھی جلد بازی نہ کریں۔اور جب بھی کوئ فیصلہ کریں تو اس میں یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ ہم جانے انجانے میں کہیں پاکستان کے مفادات کو نقصان تو نہیں پہچا رہے؟
کہیں ہم کسی شازشی گھن چکر میں آکر کہیں کوئ اپنا نقصان تو نہیں کر رہے-
اس قسم کے واقعات ہمیں بعض دفعہ اتنا جذباتی کر دیتے ہیں کہ ہم بغیر سوچے سمجھے دشمنوں کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں،
جسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جاتا ہے۔
ہم نادانی میں اس ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کے بجاۓ اسی کا ایندھن بن جاتے ہیں،
جو ہمارے لئے بطور معاشرہ اور بطور ایک ملک کے سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔
ہمیں اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔معاشرے میں وہ چیزیں لیکر آئیں،جن کی اجازت دین اسلام بھی دیتا ہو۔ان چیزوں پر قانون سازی ہونی چاہیے،جو حکومت کی زمہ داری ہے۔لوگوں کو جج اور منصف کا حق نہیں دیا جا سکتا،ورنہ ہم جنگل کا معاشرہ بن جائیں گے،
لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے معتدل رویہ اختیار کریں۔
جھپٹ نہ پڑیں،اپنے اندر کے شیطان کی تسکین کے لئے۔
پاکستان میں ہم اپنی اُن روایات کے باغی نہیں ہو سکتے،
جن میں گھر کے بڑے چھوٹوں کو نصیحت کرتے ہیں۔
جہاں باہر جانے کے لئےباپ ،بھائ اور خاوند کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
جہاں شام کے بعد گھر کے نوجوانوں کو گھر سے باہر جانے سے روکا جاتا ہے۔
جہاں مائیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں ہر وقت اپنے بچوں کو سمجھاتی رہتی ہیں کہ یہ پہنو،اس طرح بیٹھو،اس طرح بات کرو۔
یہیں سے ہمیں وہ تربیت ملتی ہے،جو ہماری سوسائٹی کا خاصہ ہے۔انہیں طور طریقوں میں یہ خاصیت اور انفرادیت بھی ہوتی ہے،
جہاں والد کسی بھی وقت اپنے بچوں کے موبائیل دیکھ سکتا ہے کہ بچے کونسی ویب سائیٹ یا مواد دیکھ رہے ہیں ؟
ان چیزوں کے بڑے فائدے ہیں،مگر خونی لبرلز کے نزدیک یہ سب دقیانوسی سوچ اور آؤٹ آف فیشن چیزیں ہیں۔

کسی بھی معاملے میں خونی لبرلز اور موم بتی مافیاز جیسے فتنوں کے جھانسے میں نہ آئیں،
کیونکہ ان لوگوں کو تو ہڈی ہی اسی مقصد کے لئے ڈالی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس معاشرے اور ہماری مذہبی درخشندہ روایات کو نقصان پہنچایا جاۓ۔
لوگوں کو خوبصورت مشرقی روایات اور بے مثال اسلامی اقدار سے دور کیا جا سکے۔
یہی ففتھ جنریشن وار ہے،جس کا مقابلہ ہم نے ایک اچھے مسلمان کے طور پہ
ایک اچھے پاکستانی کے طور پہ
اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان کے طور پر کرنا ہے۔
کیونکہ ایک اچھا انسان بنے بغیر ہم نہ تو اچھے پاکستانی بن سکتے ہیں اور نہ ہی اچھے مسلمان #

تحریر-سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Leave a reply