تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی : اسکی اہمیت کیا ہے ؟ یہودی اس کو ڈھونڈ کیوں رہے ہیں ؟ مبشرلقمان کی سیرحاصل گفتگو

0
210

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی : اسکی اہمیت کیا ہے ؟ یہودی اس کو ڈھونڈ کیوں رہے ہیں ؟ مبشرلقمان کی سیرحاصل گفتگو

 

 

اطلاعات کے مطابق سنیئر صحافی مبشرلقمان نے تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی : اسکی اہمیت کیا ہے ؟ یہودی اس کو ڈھونڈ کیوں رہے ہیں ؟کے بارے میں بڑے بڑے انکشافات کیئے ہیں ،

 

وہ کہتے ہیں کہ

 

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی ۔۔۔

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی بارے آپ نے یقین سن رکھا ہو گا ۔ پر سوال یہ ہے کہ

۔ اسکی اہمیت کیا ہے ؟

۔ یہودی اس کو ڈھونڈ کیوں رہے ہیں ؟

۔ کیا یہ دنیا میں ہی موجود ہے یا پھر آسمان پر اٹھایا جا چکا ہے ؟

۔ دجال ‏کا اس سے کیا تعلق ہے ؟

۔ اور کیا یہ بھی آخری معرکہ کے دوران ہی منظر عام پر آئے گا ؟

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ہیکلِ سلیمانی اور تابوت سکینہ کا ذکر مذہبی تاریخ کے حوالے سے بکثر ت سننے کو ملتا ہے لیکن حقائق کا علم بہت کم پایا جاتا ہے۔اگرچہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں اس کےمتعلق مختلف آراء بھی  بیان کی جاتی ہیں تا ہم اہم نکات و واقعات پر تاریخ دانوں کا اتفاق پایا جاتا ہے۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پا کر فلسطین چلے آئے تو انہوں نے عرب سرزمین پر بسیرا کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی حضرت طالوت علیہ السلام، حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حضرت داود علیہ السلام نے حضرت طالوت علیہ السلام کی صاحبزادی سے شادی کی۔ آگے چل کر میں تفصیل سے اس بارے آپکو بتاوں گا ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ پر تابوت سکینہ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا اور ان سے حضرت داود علیہ السلام تک پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ صندوق حضرت داودعلیہ السلام کے پاس تھا تو اس میں لوح قرآنی اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی تھا۔ اور تورات۔ کوہ سینا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تختیاں اور وہ برتن بھی تھا جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔ اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ یہ تابوت یہودیوں کے لیے زندگی اور موت کا سامان ہے وہ اس تابوت کو آج تک ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ناصرف وہ بلکہ دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات اس کی کھوج میں مسلسل لگے ہوئے ہیں یہ تابوت آخر کہاں گیا چلیں یہ بھی جانتے ہیں ۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اللہ تعالی سورة البقرہ میں فرماتے ہیں ۔ اور بنی اسرائیل سے انکے نبی نے کہا ۔ کہ طالوت کی بادشاہی کی یہ نشانی ہے کہ وہ تابوت تمھارے پاس آئے گا جس میں تمھارے رب کی جانب سے اطیمنان ( تسلی) ہے ۔ اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جو موسی اور ہارون کی اولاد چھوڑ گئی تھی ۔اس صندوق کو فرشتے ‏اٹھا لائیں گے ۔ بے شک اس میں تمھارے لیے پوری نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو ۔۔۔ البقرة ٢٣٨

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  لیکن ہوتا کیا ہے جب یہ صندوق یہودیوں کو ملتا ہے تو وہ اس صندوق کو لے کر خود کو سپر پاور سمجھتے ہیں ۔ اس صندوق کی بڑی دیکھ بھال کی جاتی تھی ‏یہاں تک کہ اس کو صرف مقدس ہاتھ ( یعنی یہودی پیشوا ) ہی چھونے کا اختیار رکھتے تھے ۔ جب بھی یہ جنگ کرتے کسی سے تو اس صندوق کو سب سے آگے رکھتے اور انکا ماننا تھا اس صندوق کی وجہ سے انہیں فتح ملتی ہے ۔ اور ہوتا بھی ایسا ہی تھا ۔ اس صندوق کے لیے انہوں نے الگ خیمہ بنا رکھا تھا۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تابوت حضرت داود ؑ کی تحویل میں تھا تب ا نہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اسکی حفاظت کے لیے ایک عمارت تیار کی جائے اور وہ عمارت ہیکل سلیمانی کہلائی جاتی ہے جس کو حضرت سلیمان نے جنات سے پورا کروایا تھا ۔ اسی لیے اسکا نام ہیکل سلیمانی رکھا گیا تھا۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  تابوت ہیکل سلیمانی میں تب تک محفوظ رہا جب تک اہل بابل نے حملہ کر کے ہیکل سلیمانی کو تباہ نہ کر دیا ۔ اس کے بعد سے یہ تابوت غائب ہو گیا ۔ کہا جاتا ہے اہلِ بابل اس کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا ۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اس صندوق کو ایک بیل گاڑی میں رکھ کران بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ حضرت شموئیل کا زمانہ تھا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ نہیں تھا انہوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے میں سے کسی کو بادشاہ بنا دیں آپ نے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت کو بادشاہ بنادیا ۔ جو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑے عالم تھے۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ لیکن بہت ہی غریب اور مفلس چراوہے تھے اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں ہے اس سے زیادہ حق ہمارے لوگوں کا ہے ۔ ایک غریب اور مفلس انسان بھلا تخت شاہی کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شموئیل نے کہا یہ فیصلہ انہوں نے اللہ کے حکم سے کیا ہے ۔ جس کا ذکر قرآن شریف کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر247اور 248میں آیا ہے ۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں فرشتوں نے تابوت حضرت طالوت کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس تابوت کو دیکھ کر تمام بنی اسرائیل نے حضرت طالوت کی بادشاہی کو تسلیم کر لیا۔جب حضرت طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کوکافر بادشاہ جالوت کے خلاف جہاد کے لئے تیار کیا اور جب روانہ ہوئے تو آپ نے اپنے لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالی راستے میں تم لوگوں کواردن اور فلسطین میں واقع ایک نہرجس کا نام نہر الشریعہ تھا سے آزمانے والا ہے ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ حضرت طالوت نے اپنے سپاہیوں کو اس نہر کا پانی پینے سے منع کیا لیکن نہر کے قریب پہنچتے ہی اسی ہزار کے اس لشکر کے زیادہ تر لوگوں نے پیٹ بھر کے پانی پی لیا اور لڑنے کے قابل نہ رہے صرف چار ہزار سپاہی آپ کا حکم بجا لائے

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  حضرت طالوت نے اللہ کے حضور گڑ گڑا کے دعا کی جو قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں فتح سے ہمکنار کیا۔ جالوت بہت طاقتور تھا ، حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے گا۔ میں اس کے ساتھ اپنی شہزادی کا نکاح اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤدنے جالوت کو جان سے مار دیا جس سے اس کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور کفار کو شکست ہوگئی حضرت طالوت نے اپنی شہزادی کا نکاح حضرت داؤدسے کردیا اور انھیں اپنی آدھی سلطنت کا بادشاہ بھی بنادیا۔اس کے چالیس سال بعد جب حضرت طالوت کا انتقال ہوگیا بعد میں حضرت شموئیل کی بھی وفات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو بادشاہت عطا کر دی ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  حضرت داؤد کی خواہش تھی تابوت سکینہ کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی مستقل جگہ بنائی جائے جسے حضرت سلیمان نے اپنے دور میں اپنے محل میں جنوں سے تعمیرکروایا جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ 598 قبل مسیح میں جب ایک ظالم بادشاہ بخت نصر نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا تو دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ وبرباد کردیا۔ اس افراتفری میں تابوت سکینہ غائب ہوگیااور آج تک اسکا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  تاہم کچھ عرصہ بعد یہودیوں نے ‏پھر سے ہیکل سلیمانی بنانے کا سوچا تو رومیوں نے اس مقدس جگہ کو تباہ کر کے وہاں ایک چرچ بنا دی ۔ پھر جب حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں یروشلم فتح ہوا تو آپ وہاں تشریف لائے ۔ آپ نے رومیوں کی بنائی چرچ کے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی اور یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بیت المقدس کھڑا ہے۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  یہودی آثار قدیمہ کی باقیات ڈھونڈنے کے بہانے دنیا بھر میں آج بھی اس تابوت کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ فلسطین کا بہت سا علاقہ انہوں نے چھان مارا ہے ۔ ان کے مطابق تابوت سکینہ یا تو حضرت سلیمان کے محل کے آس پاس ہے یا یہ مشرق وسطی میں کہیں موجود ہو سکتا ہے ۔ اس کے بارے میں کئی حساب لگائے جاتے ہیں لیکن حتمی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  یہودی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی بنانے کے لیے بیت المقدس کو گرانا ہوگا ۔ تاہم سننے میں یہ ہی آیا تھا کہ تابوت کی تلاش کی آڑ لے کر وہ بیت المقدس کی جڑوں کو کھوکلا کر ‏چکے ہیں ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ یہودی یہ بھی مانتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کی ایک بچ جانے والے  دیوار میں کوئی دروازہ ہے جس سے انکا نبی ( دجال ) آئے گا یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو دفن کرنے کے لیے اس دروازے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ خاصیت دجال کی ہی ہے جب وہ آئے گا تو مردوں کو زندہ کرےگااور اسلام کے مطابق بھی یہ ہی کہا گیا ہے کہ وہ قرب قیامت ہو گی جب دجال آئے گا اور یہودی اسکی بعیت لیں گے اور انکے گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو گا ۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  تو تابوتِ سکینہ کو ڈھونڈا اسی لیے جا رہا ہے کہ وہ کہیں سے انکو مل جائے تو یہ دنیا فتح کر سکتے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق یہ تابوت مشرق ‏وسطی میں پایا جا سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر وہ تابوت آسمان ہر نہیں اٹھایا گیا تو اسے زمین پر ہی کہیں ہونا چاہیے اور ایک جدید تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وہ تابوت زمین پر ہی ہے ۔ یہ شمشاد کی لکڑی کا بنا ہوا ہے اور کافی بڑا صندوق ہے ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  چونکہ تابوتِ سکینہ میں موسی ؑ کا عصا بھی موجود ہے اور تورات کے اصل نسخے بھی تو انکی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ نے اس تابوت کو انسانوں کی نظر سے پوشیدہ کر دیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے وہ عین دجال کے دور میں سامنے آئے اور اسکا استعمال حضرت عیسیؑ کریں ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ویسے تو عیسی ؑ کو دیکھتے ہی دجال پگھلنا شروع ہو جائے گا اور وہ اس تک  پہنچ کر اسے ختم کر دیں گے تو وہ کس چیز سے اسے ختم کریں گے یہ بھی ابھی ایک راز ہے ہو سکتا ہے حضرت موسی ؑ کے عصا سے اسے ہلاک کریں یا ہو سکتا ہے عام تلوار سے ۔ اس بارے میں بھی تحقیق جاری ہے ۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ  تو اے ایمان والو جان لو ۔ اللہ کی حکمت اور دانائی سے ہی زمین کا سارا نظام چلتا ہے وہ جب چاہے تابوت کو آشکار کر دے گا اور اگر وہ نہ چاہے تو کوئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا اسلیے اپنے رب کی بڑائی بیان کیا کرو ۔

Leave a reply