چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سماعت کی جس کی سماعت براہ راست سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئی، فل کورٹ میں سپریم کورٹ کے تمام 15ججز شامل تھے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر اپیل پر سماعت صبح 11 بج کر 40 منٹ پر شروع ہوئی، جو تقریبا 7 گھنٹے 5 تک جاری رہی جبکہ دن بھر جاری رہنے والی سماعت شام کے وقت 6 بج کر 45 منٹ پر ملتوی کردی گئی، سماعت کے دوران 2 بار وقفے بھی ہوئے، پہلا وقفہ دوپہر 2 بج کر 20 منٹ پر ہوا، جس کے بعد 3 بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
حلقہ بندی کمیٹیوں ہر صورت 26 ستمبر تک کام مکمل کرنے کی ہدایت
سانحہ بلدیہ ٹاؤن:طلبی کے باوجودعدالت سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کے پیش نہ ہونے پر برہم
پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں پر فنکاروں کا رد عمل
اسلام آباد پولیس اور غیر ملکی شہریوں کے درمیان جھگڑا؟
اس کے بعد سماعت میں دوسرا وقفہ 5 بج کر 15 منٹ پر ہوا، جو تقریبا ایک گھنٹہ 20 منٹ تک جاری رہا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی جو زیادہ زیر نہ چل سکی اور سماعت 10 منٹ تک جاری رہی اور عدالت کی کارروائی 6 بج کر 45 منٹ پر روک دی گئی۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت پہلے 2 اکتوبر تک ملتوی کی اس کے بعد تاریخ بدلتے ہوئے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اپنا تحریری جواب اٹاری جنرل کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنےکی استدعا کی ہے۔ یاد رہے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی تاہم یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا تھا اور حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس اپریل میں کسی بھی آئینی مقدمے کے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔








