ہیش ٹیگ می ٹو کیمپنگ کا ۔آج یو ٹیوب میں می ٹو کے بانی ترانا برکی کا انٹرویو دیکھ رہا تھا ۔انہوں نے بڑے صاف الفاظ میں بتادی کہ یہ ایک مہم ہے جو دنیا بھر میں چل رہا ہے ۔جسکو میں نے 2006میں می ٹو کے نام سے شروع کیا تھا دراصل می ٹو عورتوں پر بے جا زیادتی اور خصوصا جنسی زیادتی کے بارے میں ہے ۔جسکا ریزلٹ اب میں دیکھ پا رہا ہوں۔لیکن ہاں اب اس میں تھوڑی سی تبدیلی آئ ہے پہلے ہیش ٹیگ نہیں تھا اب ہیش ٹیگ لگا کر اس کو اور سنسنی خیز بنا دیا گیا ہے ۔
ترانا کہ رہی ہیں میں نے اس کیمپنگ کی شروعات اس لئے کی تاکے عورتیں اپنے اوپر ہوئے جنسی زیادتی کو بیان کرے اس زیادتی کے شکار چاہے وہ کبھی بھی ہوئ ہوں یا ابھی ابھی حالیہ کچھ مہنہ سال پہلے اپنے اپنے واقعات کو ہیش ٹیگ می ٹو کرکے شیر کریں ۔اس سے نہ صرف بیداری آئے گی بلکہ آنے والی نسل کو بھی فائدہ ہوگا ۔
ترانا دراصل ایک امریکی شوشل ورکر ہی نہیں بلکہ ایک تانیثت کے علمبردار بھی ہیں ۔ظاہر ہے ایسے معروف عورت کی باتوں میں لبیک کہنا کوئ بڑی بات نہیں لیکن مزے کی بات یہ ہیکہ دوہزار چھ سے یہ کیمپنگ چل رہی تھی تب می ٹو کے نام سے تھا اور اب ہیش ٹیگ می ٹو کے نام سے ہے۔اس وقت تو کسی نے خاطر خواہ اپنے اوپر ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کو شیر نہیں کیا ۔اور اب جبکہ بارہ سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گز گیا ہے تو سبکو اپنی اپنی پرانی باتیں یاد آرہی ہیں ۔بلکہ کچھ لوگوں نے تو اپنے بچپن کی باتوں کو کچھ نے اپنے شروعاتی جوانی کے دنوں کی باتوں کو بھی بغیر ہچکچائے کہ ڈالا ہے ۔
دیکھئے دراصل ہیش ٹیگ کیمپنگ میں ٹویسٹ اسوقت آیا جب پچھلے سال نومبر دوہزار سترہ میں ہالی ووڈ کے مشہور و معروف فلم شاز شخصیت ہاروی وائنسٹن پر جنسی زیادتی کے الزام لگے ۔ان پر الزام لگانے والی بھی کوئ اور نہں ہالی ووڈ کے ہی مشہور و معروف اداکارہ الیسا میلانے ہی ہیں۔انہوں نے وائنسٹن پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ پوری طرح ہالی ووڈ کو اپنے چپٹ میں لے لیا ۔ الیسا کے ٹوئٹ کے بعد کچھ ہی گھنٹہ میں دو لاکھ لوگوں نے ہیش ٹیگ می ٹو کو ری ٹوئٹ کیا اور شام تک پانچ لاکھ مرتبہ لوگونے اس بات کو اپنی ٹوئٹ میں دہرا دیا۔ چوبیس گھنٹہ تک لگ بھگ 4.7ملین لوگوں نے اس مہم کا ساتھ دیا ۔بلکہ حقیقی بات یہ ہیکہ یو ایس کے پینتالیس فیصد لوگوں نے اس ہیش ٹیگ می ٹو کا استعمال کیا وہ بھی صرف شروعات کے چوبیس گھنٹوں میں ۔الیسا کے بعد ہالی ووڈ سے وائنسٹن پر الزامات کے بوچھار لگنے لگے اس لسٹ میں لویتھ مالیٹرو ،کارا ڈیو لین ،این جیلینا جولی ،لیا سیڈ لاس روزانہ ارکوئن اور میرا جیسی نامور اداکاروں نے جنسی زیادتی کی شکایت کر دی ۔
اس بھنڈا پھوڑ کے بعد بہت سارے لوگوں نے اپنی اپنی پوسٹ گوائیں بہتوں کو اپنی پوزیشن سے معطل ہونا پڑا کتنے لوگ اپنی اپنی عزت کا مٹی پلید کئے اور کتنوں کا بنے بنائے ستارہ دوبارہ گردش کرنے لگا ۔اسی زمانے میں یہ الزام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی لگا یہی وجہ ہیکہ انکو ایک پریس انٹر ویو میں یہ بات کہنی پڑی کہ بہت سارے لوگ اس ہیش ٹیگ می ٹو مہم کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنا رہے ہیں بہت سارے لوگ اس مہم سے ناجائز پیسہ کمانا چاہ رہی ہیں۔الغرض موٹے طور پر انہونے کہا ہیش ٹیگ می ٹو مہم ہمارے ملک کے لئے مہلک ہے۔
ابھی تک یہ سب باتیں یوروپین ممالک پر ہی چل رہی تھی ۔اور مذکورہ واقعات بھی پچھمی ممالک میں ہی ہوئے تھے ۔مگر بات وہیں ختم نہیں ہوئ ۔ترانا اپنے مہم میں لگاتار محنت کرتی رہی اور اب انہوں نے شوشل میڈیا پر اپنی مہم کو بہت تیز کردیا ۔ایک رکاڈ جسکو راینن نے شائع کیا ہے۔عورتیں جو جنسی زیادتی کے خلاف 1998 تک اپنا رپورٹ لکھوائ تھیں ان سب کی تعداد ۔17,7000,000 ہے ۔یاد رہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب عورتیں اپنی جنسی زیادتی کی بات کو کسی کو بولنا ہی نہیں چاہتی تھیں ۔اسی رپورٹ میں یہ بھی دیکھایا گیا ہیکہ پچاس فیصد عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی انکے گھر میں یا گھر کے اس پاس ہی ہوتے ہیں ۔اور 82فیصد سیکسول گالیاں برداشت کرنے والی عورتیں ہی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
خیر اسی زمانے میں اپنے ہندوستان کے کچھ بالی ووڈ اداکارئیں بھی ادھر مغربی ممالک میں اپنی زندگی گم نامی کے ساتھ گزار رہی تھیں ان میں ایک نام جمشید پور جھارکھنڈ کے معروف کوئن اور 2004 کے مس انڈیا اوراسی سال کے مس ورلڈ تنوشری دتا کا بھی ہے ۔انکو ہیش ٹیگ می ٹو بہت اچھا لگا ۔اور کود پڑی اس میدان کار زار میں ۔چا ہے اسکا جو بھی مقصد رہا ہو آنا فانا ہندوستان آئ اور بالی ووڈ کے لوگوں کو جگانا شروع کی ۔سب سے پہلے اپنی واقعہ ہیش ٹیگ می ٹو کے ساتھ شروع کی اور بر سر عام کہ ڈالا کہ میرے ساتھ دس سال پہلے نانا پاٹیکر نے جنسی زیادتی کی تھی جسکو اسوقت بھی میں نے اٹھایا تھا لیکن لوگوں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔اب اچھا موقع ہے مجھے انصاف ملنا چاہئے ۔
اب کیا تھا لگ گئ آگ اور ایک دم سے سونامی کی طرح آگ کی لہر چلنے لگی۔کچھ ہی دنوں بعد ایشوریہ ،کاجول ،عامر خان امیتابھ بچن سرکار کے طرف سے اسمرتی ایرانی وغیرہ نے سہمے سہمے اداکارہ تنوشری دتا کا سپورٹ کیا ۔اب اس آگ میں ویکاس بہل،آلوک ناتھ اور کیلاش کھیر سبھاش گھئ ساجد خان وغیرہ کو بھی جلا ڈالا ۔پھر کیا تھا جیسے ہی ان لوگوں کے دامن میں آگ کا چھیٹا پڑا یہ لوگ بڑ بڑھانے لگے ۔اور الٹی سیدھی دلائل دینے لگے ۔
رکئے ابھی کہانی ختم نہیں ہوئ ہے ابھی کہانی اور ٹوئسٹ باقی بلکہ اب تو آگ کا گولا اور افان مارنے لگا ہے۔اب باری آئ ہندوستانی جرنلسٹوں کی جرنلسٹوں نے سب سے زیادہ جس شخص پر آگ لگائ وہ ہے ایم جے اکبر اکبر صاحب پہلے پرومیننٹ جرنلسٹ تھے اب بہت بڑے سیاست داں ہیں اس کے علاوہ بھی کچھ چند لوگوں پر آگ لگی ہے مگر وہ لوگ بڑے چالو ہیں پانی ساتھ میں رکھتے ہیں آگ لگنے سے پہلے ہی بجھانے کا مادہ خوب جانتے ہیں ۔
اور ہاں یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک کسی پر کوئ خاطر خواہ کاروائ بھی نہیں ہوئ ہے سوائے ہلکا پھلکا نانا پاٹیکر کے۔اور کاروائ شاید نہ بھی ہو کیونکہ پچھلے کئ سال پہلے امیت شاہ بھی ایک لڑکی کے جاسوسی میں بری طرح پھسے تھے اسوقت بہت ہنگامہ بھی ہوا تھا اسلئے بعید نہیں کے ہیش ٹیگ می ٹو کرکے وہ لڑکی بھی اپنی اسٹوری لکھ دے ۔اور پھر سے دوہزار انیس کا بنے بنایا ماحول مکدر ہوجائے ۔اور پرانا قضیہ ایک بار پھر سامنے آجائے اسلئے سرکار اس بات کو زیادہ طول دینا نہیں چائے گی ۔
ہم لوگ جانتے ہیں فلم انڈسٹری اور جرنلزم دو ایسی انڈسٹری ہے جہاں سیکس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے یہاں تو ہر چیز کی آزادی ہے کھلی چھوٹ ہے زنا نام کی کوئ چیز یہاں ہے ہی نہیں ۔سیکس کرنا بوس وکنار کرنا حتی کہ ایک دوسرے کے بیویوں کا تبادلہ کرنا بھی یہاں آزاد خیالی اور مہذب مانا جاتا ہے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو تو یہ لوگ معیوب ہی نہیں سمجھتے پھر یہ ہیش ٹیگ می ٹو کا جلوہ آخر سب کے سر چڑھ کر کیوں بول رہا ہے ۔میرے سمجھ سے پرے ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کے رافیل کے سیاہ دھبا کو چھپانے کے لئے سرکار ہیش ٹیگ کو زیادہ طول دے رہاہے ۔
پھر یہی سمجھ لیا جائے کہ صدر صاحب ڈولنڈ ٹرمپ جی کی بات صحیح ہےکہ یہ سب نیم فیم اور پیسہ کے لئے کیا جارہا ہے بات قابل غور ضرور ہے۔ دوسری اور آخری بات ہم ہندوستانی کب تک نقل کرینگے کب تک مغرب کو ہی اپنا مائ باپ سمجھیں گے ۔ارے یار ان لوگوں نے ہیش ٹیگ می ٹو شروع کیا ہے دوہزار چھ سے ان کے یہاں چل رہا ہے ۔ان لوگون نے اپنے سوسائٹی اور سماج کے حساب سے می ٹو کو ایجاد کیا ہے ہم کیوں اسکو ڈھوتے پھریں ۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ ہم اسی مغربی آزادی کو ہی تو نسوانی آزادی کا ٹیگ دے رکھے ہیں اب ہمیں انکی چیز کو تو فالو کرنا ہی پڑیگا ۔ ایک بات یاد رکھیں ہم آج بھی غلام ہیں غلام لیکن ہم جسمانی غلام نہیں بلکہ ہم ذہنی غلام ہیں ۔اور صاحب آدمی جسمانی غلامی سے تو آزاد ہوجاتا ہے مگر ذہنی غلامی سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا
ہیش ٹیگ می ٹو ، پھیلتا ہوا ناسور—-از— ترانابرکی