آج فیصل آباد کے آٹھوں بازاروں میں ہڑتال تھی۔تقریبا 90 % کاروبار بند تھا۔ہڑتال کلچر عالمی طور پہ تسلیم شدہ و پر اثر کلچر ہے۔ہڑتال کے زریعے افراد تنظمیں و گروہ اپنے مطالبات منواتے ہیں ارباب اختیار سے۔ہمارے ہاں بھی یہ کلچر اپنی پوری ہشر سامانی کے ساتھ رائج ہے۔ڈاکٹرز تک اپنے جائز و نا جائز مطالبات منوانے کے لیے مریضوں کو موت کے رستے پہ کامزن کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہی کرتے جبکہ یہی ڈاکٹرز پرائیوٹ کلینکس و ہاسپٹلز میں ہڑتال کے دنوں میں ہی دونوں ہاتھوں سے دولت بھی سمیٹ رہے ہوتے ہیں
آج کی ہڑتال کو ایک ٹائیٹل یا نام دیا جاۓ تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹھوں کی ہڑتال تھی۔بڑا سیٹھ ، تاجر ، مینوفکچرر جو بھی چیز بناتا یا بیچتا ہے اس پہ حکومتی شرح کے مطابق بذریعہ چھوٹے تاجر و دوکاندار عوام سے ٹیکس وصول کرتا ہے اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف گورنمنٹ کو دیکر باقی سارا ٹیکس چوری کرکے اپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرتا چلا جاتا ہے اور ہل من مزید کا نعرہ مار کے اپنے ڈھیٹ پنے کا ثبوت بھی دیتا ہے
موجودہ دور حکومت سے پہلے بھی ہر چیز پہ 18 % سیلز ٹیکس عوام سے لے رہا تھا نام نہاد اشرافیہ کا ٹولہ۔تمام کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے و کاروباری ڈاکومیٹشن کے موجودہ حکومتی عزم کو دیکھتے ہوۓ سیٹھوں نے قیمتوں کو 17% مزید ٹیکس ایڈ کرتے ہوۓ بڑھا دیا جبکہ حکومت کو دیا کچھ بھی نہی پچھلے چند ماہ سے۔عام آدمی و حکومت کے لیے لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ٹیکس 18 + 17 = 35 % کی شرح سے وصول تو کیا جا رہا ہے
عوام الناس سے لیکن گورنمنٹ کو مل بہت تھوڑا رہا ہے۔اور سارا ٹیکس بلیک منی و بے نامی جائیدادوں میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ عام آدمی ان معاشی مگرمچھوں کی ملک و عوام دشمنی کو جان جائے اور اپنے حقوق کے لیے حکومتی اقدامات کا ساتھ دے۔عوام کا دیا ٹیکس سیٹھوں کے اندھے کنوؤں کی مانند پیٹوں میں دفن ہونے کے بجاۓ ریاست کو ملنے لگ گیا تو ریاستی معاشی حالت سنبھلنا شروع ہو جاۓ گی ان شاءاللہ
سیٹھوں کی ہڑتال —-از…حفیظ اللہ سعید