اسلام آباد:پاکستان میںدہشت گردی کے حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف آرااورتریفیں کی جاتی رہی ہیں ، مگرحقیقت میں دہشت گردکون ہوتا ہے اس کا پہلی بار تعین سپریم کورٹ آف پاکستان نےکردیا ہے ، اسی حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا، اس فیصلے کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے کہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردی میں ملوث قرار دیے جا سکتے ہیں۔
دلدارپرویزبھٹی 25 سال بعد بھی زندہ !وہ کیسے ؟
دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے وضاحت کے ساتھ اس کی اقسام بیان کردی ہیں تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ، بھتا خوری اور ذاتی عناد کے باعث مذہبی منافرت پھیلانا دہشت گردی نہیں ہے۔ منظم منصوبے کے تحت پر تشدد کارروائیاں، مذہبی، نظریاتی، اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد دہشت گردی ہے۔
ڈگری نہیں خداداصلاحتیں ہوں توبنتی ہے زندگی، جویریہ سعود نے نیا نظریہ پیش کردیا
سپریم کورٹ کے مطابق حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف و ہراس پھیلانا، منصوبے کے تحت جانی و مالی نقصان پہنچانا، منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا، منصوبے کے تحت صحافیوں، تاجروں، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے دہشت گردی ہے۔دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے میں مزید شفافیت دکھانے کے لیے پارلیمنٹ کو بھی ہدایات جاری کردی ہیں ، سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں وہ دہشت گردی کی نئی تعریف کا تعین کرے۔
اسلامیات کی ریفرنس بک میں غلط تجزیے ،وزیراعظم نے نوٹس لے لیا
سپریم کورٹ کی طرف سے دہشت گردی کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں، سیکورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہے۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا دہشت گردی نہیں ہے، ذاتی دشمنی اور عناد کے باعث جلاؤ گھیراؤ، بھتا خوری، ذاتی عناد اور دشمنی کے باعث مذہبی منافرت اور دشمنی کے باعث سرکاری ملازم کے خلاف تشدد میں ملوث ہونا بھی دہشت گردی نہیں ہے۔
عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے، مولانا فضل الرحمان
عدالت کا کہنا ہے کہ 1974 سے دہشت گردی پر قابو کے لیے مختلف قوانین متعارف کرائے گئے، انسداد دہشت گردی قانون انتہائی وسیع ہے، قانون میں کئی اقدمات ایسے ہیں جن کا دہشت گردی سے دور دور کا تعلق نہیں، قانون میں ایسے سنگین جرائم کو شامل کیا گیا جن سے عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ پڑا۔
عدالت نے مزید کہا کہ اغوا برائے تاوان اور اس جیسے دیگر سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کیا گیا، ایسے اقدام سے دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے، پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں وہ دہشت گردی کی نئی تعریف کا تعین کرے، اور اس سلسلے میں عالمی معیار سمیت سیاسی، نظریاتی اور مذہبی مقاصد کا حصول مد نظر رکھے۔
مولانا کا مارچ پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے،عمران خان
فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی، نظریاتی یا مذہبی مقاصد کے بغیر پر تشدد کارروائی دہشت گردی نہیں، پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل جرائم ختم کرے، ان تمام جرائم کو ختم کیا جائے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔60 صفحات پر مشتمل یہ تحریری فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا۔