آج کا انسان
آج جب زندگی تیز ہو چکی ہے اور لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں رہا تو مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
بچپن میں صرف فیکٹری کی مشینوں اور آلات کا تصور تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز جیساکہ موبائل فون کا تعلق بھی ایسے ہی آلات سے ہے جو انسان کو ایک دوسرے سے دور لے جا رہے ہیں آج اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو ہم محض چند لمحات کے لیے ظاہری طور پر سوگوار نظر آتے ہیں اور بعد میں پھر وہی زندگی کے اشغال میں مصروف، ایسا کیوں ہے؟
اگر ہم کسی کے جنازے میں جاتے ہیں تو وہ بھی صرف اظہار تعزیت کے لیے لئے نہ کہ خوشنودی رب کے لیے؟ آج ہم لوگ ایک دوسرے سے دور کیوں ہو رہے ہیں ؟ حالانکہ اسلامی معاشرہ تو وہ ہے کہ جس کے متعلق اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
آج ہم اس شعر کا مصداق کیوں نہیں ہیں ؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم دین محمدی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دور ہوتے جارہے ہیں ہم کیوں نہیں قرآن و حدیث پر عمل کرتے؟ تو اس کا جواب ہے ٹیکنالوجی پر وقت کا ضیاں!
جی ہاں بہت سے لوگ میری اس بات کو پر توجہ نہیں دیں گے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم موبائل فون ٹیلی ویژن کمپیوٹر اور اس طرح کی دیگر چیزوں میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس ماں باپ بہن بھائی اور دوست جیسے عظیم رشتوں کے لیے کوئی وقت بچا ہی نہیں آج اگر دوستی کی بات کی جائے تو لوگ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں
میں خود لپٹ گیا تھا جسے دوست جان کر
وہ سانپ کی طرح مجھے ڈستا چلا گیا
اب یہ بات بھی نہیں کی ان چیزوں کا استعمال سرے سے ہی غلط ہے لیکن
Excess of everything is bad.
یعنی ایک حد تک ان کا استعمال درست ہے مگر جب ہم اس حد کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں ایسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی تلافی بہت مشکل ہوتی ہے اور بعض اوقات ناممکن ہمیں اس بات کا ادراق یونا چاہئیے
قارئین کرام ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نوجوان نسل کو یہ بات سمجھائیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس ناسور سے بچاسکیں۔
انداز بیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
آج کا انسان…… از….نعیم شہزاد