روس :عیسائیت کے بعد اسلام دوسرابڑا مزہب،اسلام کے روس میں مقبولیت کی کہانی روسی مورخین کی زبانی

0
121

دین اسلام روس میں کب پہنچا اور اس کے پھیلاوء کی کہانی روسی مورخین کی زبانی ،روس میں دین اسلام کی مقبولیت کا دلچسپ سفر کیسے اور کب شروع ہوا اس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے. روسی فیڈریشن میں عیسائیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد مذہب اسلام کے ماننے والوں کی ہے۔ روس کی سرزمین پر اور سب سے زیادہ قفقاز اور پاوولژے میں اسلام تقریبا” منصہ شہود پر اپنے نمودار ہونے کے بعد ہی پھیلنے لگا تھا اور اسلام نے ان تمام صدیوں میں روس کی حکومت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

مورخین کے مطابق روس کی سرزمین پر سب سے پہلے شمالی قفقاز کی ریپبلک داغستان کے شہر دربنت کے باسی مسلمان ہوئے تھے جنہوں نے 653 میں عربوں کے ساتھ جنگ لڑی تھی۔ اگرچہ خزر کے علاقے میں شکست کھانے کے بعد عرب لوٹ گئے تھے لیکن اس خطے میں مسلمان موجود رہے تھے جس کی شہادت دربنت کے گورستان میں ” چالیس شہداء” کے نام سے ان مقابر سے ہوتی ہے جو ساتویں آٹھویں صدی عیسوی کے ہیں۔ دربنت کی جمعہ مسجد 733 میں تعمیر کی گئی تھی۔

روس کے مشہور علاقے شمالی فققاز میں اسلام کے مستحکم ہونے کے بعد اسلام وسط ایشیا میں پہنچا تھا۔ اگرچہ اب وسط ایشیا کی ریاستیں اپنے طور پر خود کفیل ممالک بن چکی ہیں مگر شہنشاہی روس اور سوویت یونین میں ان کا بہت زیادہ کردار رہا ہے۔ آج روس میں تاجکستان،ازبکستان، کرغیزستان اور کزاخستان سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان بستے ہیں جو روس کی مسلمان برادری کی سرگرمیوں میں براہ راست شریک ہوتے ہیں۔

روس کے یورپی حصے میں بنیادی طور پر اسلام کا مرکز دریائے وولگا سے منسلک خطہ پاوولژے اور یورال کا علاقہ تھے۔ وولژے کے بلگاروں کے حکمران الموش نے 922 میں سرکاری طور پر اسلام کو بطور مذہب قبول کر لیا تھا اور بلگار ریاست میں بغداد کے خلیفہ کے ایلچی کا سفر گواہ ہے کہ اس سے پہلے بھی اس علاقے میں اسلام بہت پھیلا ہوا تھا مساجد تھیں جن کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی تھے۔

980 کے عشرے میں کنیاز (شہزادہ) ولادیمیر کو بھی اسلام کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے بازنطینی پادریوں کا لایا ہوا مذہب عیسائیت اپنے لیے چن لیا تھا۔ مشرقی ذرائع کے یہ کوائف کہ خوارزم میں وہاں کے حکمران وولادمیر (یا بلاد میر) کے اسلام قبول کیے جانے کے بعد وہاں خلیفہ اسلام کا سفارت خانہ تھا ثابت کرتا ہے کہ ان روابط بارے حقائق مصدقہ ہیں۔بعد میں سرکاری طور پر تمام ترک زبان بولنے والے "غول زریں” کے لوگوں نے اپنے خان، ازبیک کے چودھویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کرنے کا بعد اس مذہب کو اپنا لیا تھا۔ "غول” کے بکھرنے کے بعد خانوادے بن گئے تھے جن میں کازان کا، وسطی پاوولژے کا، استراخان کا، نژنی (زیریں) پاوولژے کا، سائبیریا میں مغربی سائیبیریا کا، نوگائیسک میں وولگا اور یورال کا، کریمیا میں آج کے کریمیا کا، جنوبی یوکرین کا، روس کے خطے کراسنا دار کا خانوادہ معروف تھا۔ بعد میں ان خانوادوں کو ماسکو کے حکمرانوں نے شکست دے ڈالی تھی۔ اس کے بعد اسلام کی تاریخ روس کی تاریخ میں مدغم ہو گئی تھی۔ جنگوں کے بعد شروع میں مسلمانوں کے معاشرتی مراکز مسجدوں کو، پتھروں سے بنایا جانا ممنوع تھا۔

روس میں اسلام کی حیثیت مضبوط ہونے کا دور 1767 میں ملکہ عظمٰی ایکاترینا دوم کے دورہ کازان کے بعد شروع ہوا تھا جب انہوں نے پہلے والی ساری پابندیاں ختم کر دی تھیں اور بین العقیدہ جاتی رواداری کے سلسلے میں انہوں نے1773 میں ” تمام مذاہب کے لوگوں میں برداشت” کا حکم صادر کیا تھا۔1788 میں ایکاترینا دوم کے حکم پر روس میں مسلمانوں کی پہلی تنظیم "اورن برگ کا ماگومیدی دینی اکٹھ” قائم کی گئی تھی۔ روس کے مسلمانوں کا رہنما یعنی مفتی کا تقرر ہوا تھا جس کو مسلمان برادری کی جانب سے چنے جانے کے بعد ملکہ کی جانب سے تصدیق لازمی تھی۔ مفتی کا دفتر اوفا میں بنایا گیا تھا۔

1817 میں شہنشاہ الیکساندر اوّل نے وزارت مذہبی امور قائم کیے جانے کے حکم پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ مفتی کا چناؤ مسلمان برادری کرے گی۔ مگر اصل میں مفتی کا تقرر وزارت امور داخلہ کی جانب سے سفارش کردہ شخصیت کو شہنشاہ مقرر کرتا تھا۔ کہیں جا کر 1889 میں سرکاری کونسل نے قانون میں ضروری ترمیم کی تھی جس کے بعد قانون پر عمل درآمد ہونا شروع ہوا تھا۔ اس کے لیے شرعی قوانین اور عام سرکاری قوانین کو ملا کر دیکھا گیا تھا۔ مفتی اور قضاء کی جانب سے دیے گئے فتاوی کی نگرانی کرنا گورنر کی انتظامیہ اور وزارت امور داخلہ کا کام ہوتا تھا۔ حکومت کے دباؤ پر اورن برگ ماگومیدی دینی اکٹھ” ان شرعی قوانین کو منسوخ کر دیا کرتی تھی جو شہنشاہی روس کے قوانین کے خلاف ہوتے تھے۔

1910 تا 1913، سینٹ پیٹرزبرگ میں پہلی مسجد پتھروں سے تعمیر کی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ اس کی طرز تعمیر میں وسط ایشیا کے مسلمانوں کی طرز تعمیر کا عکس ملتا ہے۔ اس مسجد کا گنبد بہت حد تک سمرقند میں گور امیر (امیر تیمور کا مزار) کے گنبد سے ملتا جلتا ہے اور عمارت کا نقشہ مزار شاہ زندہ سے مماثل ہے۔ مسجد کی دیواروں پر گہرے سرمئی رنگ کا گرینائٹ پتھر ہے جو مسجد کو یادگاری شکل اور پیٹرزبرگ کی شمالی طرز تعمیر کا رنگ دیتا ہے۔
شمالی قفقاز میں اسلام "جنگ قفقاز” تک بہت گتھا ہوا تھا۔ روس نے یہ جنگ چیچنیا، داغستان اور چرکیسیا کی امامت کے خلاف لڑی تھی۔ روس کی شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد سوویت یونین کے قیام کے کچھ بعد تک ایک بار پھر شمالی قفقاز کی امارات قائم کر دی گئی تھیں جہاں شرعی قوانین نافذ تھے۔

1917 کے فروری انقلاب کے فورا” بعد ” اورن برگ ماگومیدی دینی اکٹھ” کو زیر نگرانی لے لیا گیا تھا اور مفتی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس تنظیم کو چلانے کی خاطر امام حبیب اللہ احتیاموو کی سربراہی میں ایک سولہ رکنی کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ سوویت عہد میں ناقابل قبول الحادی حکومت کے خلاف اسلام کی مزاحمت قدامت پسند عیسائیت، جس پر ملک کی آبادی کی اکثریت کاربند تھی، کی جانب سے مزاحمت کے مقابلے میں قوی اور گہری رہی تھی۔ جبکہ خود سوویت حکام کی پالیسی اور سوویت ریاست شروع سے مسلمانوں کے ساتھ نرم رہی تھی اور دینی اعمال پورے کرنے یا مذہبی گروہ بنانے کو تشویش کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔

1920 میں اوفا میں مسلمانوں کا پہلا وسیع تر اجلاس ہوا تھا جس میں مسلمانوں کی مرکزی دینی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو اورن برگ ماگومیدی دینی اکٹھ کی وارث تھی اور جو یورپی روس، سائبیریا اور کزاخستان کے مسلمانوں کے مذہبی مسائل کے حل کاکام کرتی تھی۔ 1926 میں مسلمانوں کی پہلی کل دنیا کانگریس کا انعقاد ہوا تھا۔ اس میں سوویت یونین کی نمائندگی مسلمانوں کی مرکزی دینی کونسل کی قیادت نے کی تھی۔
مگر 1920 کے عشرے کے دوسرے نصف میں تمام مذہبی اداروں، بشمول اسلام سے وابستہ اداروں کے خلاف ملحدانہ پرچار کا دباؤ شدید تر ہو گیا تھا۔ دوسرے مذاہب کی مانند اسلام کو بھی بہت ضرر سہنا پڑا تھا کیونکہ اس پرچار کے نتیجے میں اکثر مساجد اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو یا تو بند کر دیا گیا تھا یا ان کی عمارات کو منہدم کر دیا گیا تھا۔

مذہبی تنظیموں سے متعلق ، بشمول اسلامی تنظیموں کے، حب الوطنی کی عظیم جنگ کے دوران کچھ نرمیاں ہوئی تھیں۔ 1945 میں بخارا کا ان زمانوں میں سوویت یونین کا واحد قائم مدرسہ "میرعرب” کھول دیا گیا تھا جس میں پورے ملک کے مذہبی اہلکار 1980 کے عشرے تک تعلیم پاتے رہے تھے، نہ صرف وسط ایشیائی ریاستوں کے بلکہ تاتارستان، بشکیریا، صوبہ پاوولژے، شمالی قفقاز اور آذربائیجان تک کے۔1960 سے 1980 کے عشرے تک قرآن چھاپے جانے کی اجازت دے دی گئی تھی، قمری تقویم چھاپی جانے لگی تھی، مسجدوں کو مذہبی مستقروں کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا، مجلّہ ” سوویت مشرق کے مسلمان” شائع ہونے لگا تھا۔سوویت یونین کے وجود کے آخری برسوں میں جب 1989سے آزادی اظہار اور تعمیر نو کا آغاز ہوا تھا، اسلام کی جانب سرکاری رویہ مزید مثبت ہونے لگا تھا۔

1944 سے سوویت یونین کے مسلمانوں کے دینی مسائل کے معاملات ایک دوسرے سے آزاد چار مختلف مراکز دیکھا کرتے تھے یعنی وسط ایشیا اور کزاخستان، ماورائے قفقاز، شمالی قفقاز، سوویت یونین کے یورپی حصے اور سائبیریا کے مسلمانوں کی دینی کونسلیں۔ پھر 1991 تک سوویت روس میں مسلمانوں کی دو دینی کونسلیں وجود رکھتی تھیں، سوویت یونین کے یورپی حصے اور سائبیریا کے مسلمانوں کی دینی کونسل (اوفا میں) اور شمالی قفقاز کے مسلمانوں کی دینی کونسل (مہچ کلا میں)۔

اس وقت چالیس سے زیادہ اپنے طور پر آزاد مسلمانوں کی دینی کونسلیں (ایوان ہائے مفتیان) تین بڑی مرکز پسند تنظیموں: اوفا میں روس کے مسلمانوں کی مرکزی کونسل، ماسکو میں روس کے مفتیوں کی کونسل اور شمالی قفقاز میں مسلمانوں کے ارتباطی مرکز میں متحد ہیں۔

روس میں مسلمانوں کی حتمی تعداد اب تک طے نہیں ہو سکی ہے اور بحث کا موضوع بنی رہتی ہے۔ 2002 کی مردم شماری کے مطابق روس میں روایتی طور پر مسلمان لوگوں کی تعداد کا اندازہ ایک کروڑ پینتالیس لاکھ افراد کے قریب تھا یعنی ملک کی کل آبادی کا تقریبا” دس فیصد۔ روس کے یورپی حصے کے مسلمانوں کی دینی کونسل کے اندازے کے مطابق اس وقت روس میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد دو کروڑ افرد تک ہے۔

مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا جاری ہے خاص طور پر شمالی قفقازکی قوموں میں کثیر الاولادی کے باعث اور ساتھ ہی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے مسلمان تعداد میں زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ تارکین وطن زیادہ تر وسط ایشیائی ملکوں اور آذربائیجان سے آ رہے ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت سنی ہے۔ شیعہ اقلیت میں ہیں۔ داغستان، چیچنیا اور انگوشیتیا میں تصوف بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔

Leave a reply