طلبا یونین کی بحالی کی بحث اور طفیل کی شہادت !
تحریر :احمر مرتضی
چند دن پہلے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہونیوالے افسوس ناک واقعے کو دو گروپوں کے درمیان تصادم قرار دیا جائے یا پھر پر امن طلبا پرغنڈہ عناصر کی طرف سے یک طرفہ حملہ، وجہ جو بھی ہو مگر اس بات کا بطور طالب علم بہت ہی افسوس ہے کہ اس تصادم یا غنڈہ گردی کی یک طرفہ کاروائی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے خوبرو نوجوان سید طفیل الرحمن شہید ہوگئے، اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ لیکن اب آئیے واقعے کے دوسرے پہلو کی طرف ان دنوں طلبا یونین کی بحالی کی بازگشت طلبا کے مطالبات سےلے کر حکومتی ایوانوں تک سنائی دے رہی ہے قطع نظر اس بات کے کہ اس بحث کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ہم بات کرتے ہے اس چیز پر جسے حکومت کو طلبا یونین کی بحالی کے فیصلہ کے وقت مدنظر رکھنا ضروری ہوگا کہ ماضی میں یونین پر پابندی کی بڑی وجہ غنڈہ گرد طلبا عناصر کی بڑھتی ہوئی انارکی و بدمعاشی اور اس جیسے دیگر مذوم مقاصد تھے جسے طلبا یونین کی اڑ میں سرانجام دیا جارہا تھا سو اب کی بار اگر حکومت وقت ایسا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسلامک یونیورسٹی کے حالیہ واقعے اور ماضی کے تلخ تجربات کو دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے کےلیے واضح اور دو ٹوک اور سیدھا ٹھوک کی بنیاد پر قوانین ضرور بنائے جس کے تحت ہر نتھو گیرے کو لگام ڈالی جاسکے اور ہر طبقے کو کھل کر اپنی نمائندگی کرنے کا حق فراہم کیا جائے۔
اب واقعے کے تیسرے پہلو کی طرف وہ یہ کہ جناب سراج الحق سے لے کر ادنی سے جماعتی کارکن تک نے طفیل کی شہادت کا دکھ اپنے دکھ کی طرح محسوس کیا مگر معذرت کے ساتھ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت یا جمیعت کے کسی مرکزی ذمہ دار نے اس واقعے کو اپنے خوفناک ماضی سے جوڑ کر ہی دیکھا ہو یا اسے اپنی “ہولڈ بڑھاؤ، راج کرو” پالیسی کا شاخسانہ قرار دیا ہو کیونکہ جمیت جس کی بنیاد (خالص اسلامی اقدار اور پاکستانیت کی ترویج) پر رکھی گئی تھی اور بڑے بڑے نام اور صد عالی مقام لوگ اس کی تربیت سے پیدا ہوئے اور آج بھی بڑے محترم لوگ اس کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر گزشتہ کئی سالوں سے جمیت کا بدلتا ہوا رویہ اور اس کے خمیر میں چھپی ہوئی شر انگیزی (جو ماضی میں بھی رنگ دکھاتی رہی ہے) بڑی خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے جس سے ناصرف کسی دور کی تن تنہا واحد طاقتور طلبا تنظیم کا “تنظیمی ڈھانچہ” بری طرح متاثر ہوا ہے بلکہ عوام الناس میں اس کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی اور ماضی میں جمیعت کے ساتھ جڑ کر اسلام کے رنگ میں رنگنے کا عزم رکھنے والے طلبا آج صرف بدمعاشی، سٹیٹس اور جاہ جلال کے حصول کے لیے اس کی سرپرستی حاصل کرتے نظر آتے ہے اور شنید یہ کہ ذمہ دارانِ جمیت باقاعدہ اس عمل پر طلبا کی حوصلہ افزائی اور شہ فراہم کرتے ہیں اگر اس بات کو سمجھنا ہو تو میں لمبا چوڑا ماضی کنگھالنا نہیں چاہوں گا بلکہ حال ہی کے صرف دو واقعات عرض کرتا ہو جس کا شاہد “راقم الحروف” خود ہے سن دوہزار سترہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جمیت اور پختون طلبا یونین میں ٹاکرا ہوا وجہ جو بھی تھی مختصر یہ کہ راقم کے کالج (سائنس کالج وحدت روڈ ) سے جمیعت نے تھوک کے حساب سے طلبا کو احتجاج کے نام پر اکھٹا کیا اور “موڑ بھیکیوال” پر جمع ہوکر یہ احتجاج خوف ناک تصادم میں تبدیل ہوگیا اور مخالفین کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس کے جوانوں کو بھی “میدان کارزار “
میں خوب رگڑا لگایا گیا اور عالی قدر دوسرا واقعہ چند دن پہلے کا ہے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں “کشمیر پروگرام” کے حوالے سے باقاعدہ اجازت کا مشورہ عنایت کرنے پر جمیعت کے جانبازوں نے سٹوڈنٹ افیئرز کے پرنسپل کو ٹھڈوں، مکوں اور دھکوں سے اپنی بادشاہت میں مفت مشورہ دینے کی سزا فراہم کی۔ واقعات تو اور بھی بہت ہیں، مگر میں یہ جاننا چاہتا ہوکہ ان واقعات کی وجہ کیا ہے؟ جو مجھے سمجھ آتی ہے کہ ایسے واقعات جو ملک بھر کی تمام چھوٹی بڑی یونیورسٹیوں میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہے (جن میں ہمیشہ کی طرح دونوں فریق ہی قصور وار ثابت ہوتے ہے ) تن تنہا اور عظیم جمیعت کا ہرتنظیم کو اپنے مقابل جاننا اور اس کے پلیٹ فارم سے منعقدہ کسی بھی پروگرام کو بدہضمی کی شکایت کی نظر سے دیکھنا ہے اور پھر جب یہ شکایت شدید پیٹ درد کی وجہ بنے تو پھر تمام تر میڈیسن سے لیس ہوکرمخالفین پر چڑھ دوڑنا ہے اور نتیجۃ مخالف گروہوں کی جانب سے بھی موقع ملتے طفیل شہید جیسے واقعات رونما کردینا ہے!
لہذا میری جماعت اسلامی کی محنت کش قیادت سے درمندانہ اپیل ہے کہ مقابل سے مقابلہ کی سوچ کو ترک کرکے برداشت اور طلبا یونین میں ہر طالب علم کو اپنی پسند کی جماعت کو چننے کا پرامن حق فراہم کیا جائے اور اپنے ناظمین کو ہرکسی کی نمائندگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا مخلصانہ مشورہ عنایت کیا جائے بلکہ آپ کو چاہیے کہ اپنے کارکنان کو ان کی شاندار بنیاد (جس پر کام کھڑا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا) پر یہ ہدف دیجیے کہ بھائی آپ طلبا کو احسن انداز سے ہر اس گروہ میں شمولیت سے روکیں جہاں ان کا تعلیمی کئیریر برباد ہو، ملک و قوم کی خدمت کے عزم کو زک پہنچے اور گھر والوں کی امیدوں پر بھی پانی پھرنے کا سبب ہو ،لیکن اگر آپ کا یہی رویہ رہا جو بدستور جاری ہے تو پھر طلبا یونین کی بحالی فقط آپ کی عالی شان ،خود مختار سلطنت کو حمایتِ سلطان کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں اور گو کہ اس امر سے آپ کی بدمعاشی کو سند فراہم ہوجائے گی اور طلبا اسلام کی نام نہاد رکھوالی جماعت سے سندِ غنڈہ گردی حاصل کرتے رہیں گے اور نتیجہ کے طور پر دیگر جماعتیں نامناسب نمائندگی کا رونا روتی رہیں گی اور ردعمل کے طور پر کتنے ہی جماعتی و دیگر تنظیمی “طفیل” اس معمولی اقتدار کی چاہ کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
لہذا وقت ہے کہ ان واقعات سے جماعتی کارکنان بالخصوص اور دیگر تنظیمی جیالے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرلیں اور حکومت وقت بھی ایسے واقعات کی روک تھام کےلیے سخت سے سخت قوانین متعارف کروائے تاکہ نہ تو طلبا کی پڑھائی کا حرج ہو اور اگر وہ تنظیمی لائف کو انجوائے کرنے کےلیے کسی کے ساتھ منسلک ہونا چاہے تو ان کو واضح سوجھ بوجھ ہوکہ وہ جس کا انتخاب کرنے جارہے ہے وہ طلبا کی راہنمائی اور انہیں خالص اسلامی فکر دینے یا خالص پاکستانی بنانے کا ایک پلیٹ فارم ہے یا پھر طلبا تنظیم کی شکل میں لسانی ،صوبائی اور دیگر بنیادوں پر کھڑا ہوا تخریب کار گروہ ہے جس سے وہ کئی مذموم مقاصد میں آلہ کار بن کے رہ جائیں گے۔