ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ رکهتی ہے –

بچے ، جن سے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کا مستقبل جڑا ہوتا ہے ان کی تربیت اس انداز سے کرنا پڑتی ہے کہ وہ اچهے شہری کہلایئں -ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ ماں کی تربیت نے ان کو ایسا انسان بنایا جنہوں نے ملک اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والے بڑے بڑے سرجن ، سائنسدان ، قانون دان اور انجنیئر ہیں -ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماں کی تربیت ہے مگر میں سمجهتا ہوں کہ وہ بچے، جن کو سائنسدان، انجنیئر یا ڈاکٹر بننا تها وہ ڈاکو بن گئے -عورتوں کے پرس چهیننے لگے، اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں، بے دریغ قتل و غارت میں ملوث ہیں. پڑے لکهے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کے علاوہ اچهی فیملی کے بچے یہ سب کام کر رہے ہیں –

ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا ان کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے ؟
کیا اب والدین کے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں رہا؟ کیا یہ میڈیا کے برے اثرات ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ وقت کی تیز رفتاری نے انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے روزمرہ کی ضرورت زندگی کی چیزیں فیملی کو مہیا کرنا اب فرد واحد کے بس کی بات نہیں –

آج کے والدین بچوں کی تربیت کرنے میں اس لیئے بهی ناکام ہیں کہ آج گهر گهر کیبل اور انٹرنیٹ ہے اور آج کے بچے ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے کمپیوٹر اور ریموٹ کنٹرول بچے ہیں کیونکہ پلک جهپکتے ہی ہر چیز ان کے سامنے ہوتی ہے ان بچوں کی تربیت کے لئے آج کی ماں کو ان سے کہیں زیادہ علم و شعور ہونا چاہئے ان پڑھ ماں کبهی بهی آج کے بچے کے مسائل نہیں سمجھ سکتی -آج کا بچہ گهریلو ، سیدھا سادہ اور معصوم بچہ نہیں ہے بلکہ وہ شعور اور آگہی سے مکمل ہے -پرانی چیزوں کی طرف دیکهنا بهی پسند نہیں کرتا بلکہ نت نئی اچهی سے اچهی ایجادات اور حیران کر دینے والی چیزوں کو پسند کرتا ہے آج کے بچے کے معیارات بدل چکے ہیں اس کے مطالبات پہلے زمانے کے بچوں سے کہیں مختلف ہیں -ایسے میں اس کی تربیت کے لئے سکول اور گهر کا ماحول ایک جیسا ہونا ضروری ہے –

ہمارے آج کے والدین اس لیئے بهی شاید ناکام ہیں کہ وہ اپنے گهروں میں بچوں کو کچھ سکهاتے ہیں جبکہ سکولوں میں جا کر بچے کو سیکهنے کو کچھ اور ملتا ہے یہ شاید ہمارے دوہرے معیار کا ہی قصور ہے –

آج کی ماں کو خود بهی سمجھ نہیں آرہی کہ اسے بچے کو کیسے ایک سمت پر لانا ہے آج کے والدین اگر بچوں کی اچهی تربیت چاہ رہے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے بچے کے لئے تعین کیئے گئے دوہرے معیار کو ختم کر دیں –

بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک سے پرہیز کریں کیونکہ بلا وجہ کی ڈانٹ ڈپٹ بهی رویوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس سے بچہ متاثر ہوتا ہے اور پهر وہ اپنے والدین کو اچ کرنے کے لئے بهی وہ کام جان بوجھ کر کرتا ہے جس سے اسے منع کیا جاتا ہے –

ہمارے ہاں ویسے بھی دو قسم کے والدین موجود ہیں ایک والدین وہ جو بچوں سے حد سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بہت ذیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں ایسے والدین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جن کے بچوں کے رویوں میں توازن موجود ہے -آج کے والدین کو چاہیئے کہ وہ اچهی طرح سوچیں کہ بچے کیسے اور کس طرح تربیت کرنی چاہیے پهر ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجهتے ہوئے بہترین تربیت کر سکیں –

کہا جاتا ہے کہ آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ادا کیا ہوا ہر عمل آپ کی تربیت کی عکاسی کرتا ہے -صرف تعلیم حاصل کر کے ہی کوئی ذی روح باشعور نہیں بن سکتا بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بهی اتنی ہی اہم ہے یعنی تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہے. جب تک علم و آگاہی کے ساتھ آپ کے پاس زندگی گزارنے کے اصول ، ضابطے اور آداب نہیں ہونگے ، صرف آگاہی کچھ نہیں کر سکتی بلکہ اس آگاہی اور علم کا زندگی پر اطلاق ہی اصل تربیت ہے اور یہ ماں کا کام ہے کہ بچپن سے ہی بچوں میں ایسے اطوار پیدا کرے کہ عملی زندگی میں ان کے کردار کی پختگی معاشرے میں ان کا وقار قائم کر سکے –

بغیر تربیت کے علم کی مثال ایسی ہے جیسے کسی جسم سے روح نکال لی جائے تو پیچھے ڈهانچہ رہ جاتا ہے -ہم کسی بهی دور کی عظیم شخصیات مثلاً محمد بن قاسم ، صلاح الدین ایوبی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیں تو ان کے پیچھے ان کی والدہ کی تربیت کا ہاتھ نظر آئے گا –

تاریخ واضح کرتی ہے کہ جب محمد بن قاسم ہندوستان کے علاقے فتح کرنے کے لیے نکلا تو اس کی ماں کے الفاظ تهے ” میں نے تجهے پیدا ہی اس لئے کیا تها کہ تو اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور ان علاقوں کو فتح کرے "- بلا شبہ اتنی کم عمری میں اس کی بلند پایہ فتوحات میں ماں کی تربیت کا بہت بڑا ہاتھ تها -لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کی ماں بچوں کی ویسی ہی تربیت کر رہی ہے اگر نہیں تو اس ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ؟

یہ درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی اقدار بدل گئی ہیں لیکن انسان تو وہی ہے زمانہ بہت تیز ہو گیا ہے وقت کی کمی کے باعث زندگی مصروف ترین ہو گئی ہے ماووں کی تربیت میں بنیادی وجہ جاب کرنے والی والی ماوں کے پاس وقت کی کمی ہے. نٹ کلچر نے بچوں کو ماوں سے دور کر دیا ہے اب بچہ جو سیکهتا ہے ٹی وی اور میڈیا سے ہی سیکهتا ہے بچوں کے پروگرام کارٹون نیٹ ورک پر چلنے والی کہانیوں نے بچوں کو بہت ایڈوانس کر دیا ہے اب بچوں کو داستان الف لیلیٰ کے زمانے گزر گئے ہیں اور اگر کہا جائے کہ سمجهداری کے معاملے میں بچے پری میچور ہو گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ بچے کیبل پروف کارٹون نیٹ ورک ہی نہیں دیکهتے بلکہ انگلش اور انڈین موویز دیکهنے کی بهی کمی نہیں -بہت کم ہیں جو اسلامک چینل ، قرآن پاک اور معلوماتی چینلز دیکهتے ہیں ان الیکٹرانک چینلز سے ہر قسم کی معلومات اور تفریح پیش کی جاتی ہے وہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ بچوں نے دیکهنا ہے اور یہ بڑوں نے، بلکہ یہ ماووں کا کام ہے کہ وہ بچوں کے لیئے اچهے برے کی تمیز پیدا کریں لیکن ماووں کے پاس تو وقت ہی نہیں !

جب ماں کی گود کی جگہ ٹی وی چینلز لے لیں تو ماں کا تربیت میں کیا کردار

والدین بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام کیوں۔۔۔؟
تحریر: سدیس آفریدی

Shares: