قدرتی آفات ہو یا کسی بھی نوعیت کے حادثات ریسکیو اداروں نے ہمیشہ برقت موقع پر پہنچ کر ریلیف کا کام شروع کرتے ہیں

رحیم یار خان(نمائندہ باغی ٹی وی )ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے کہا ہے کہ قدرتی آفات ہو یا کسی بھی نوعیت کے حادثات ریسکیو اداروں نے ہمیشہ برقت موقع پر پہنچ کر ریسکیو اینڈ ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کرکے قیمتی انسانی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا، بڑھتے ہوئے حادثات کی شرح کو روکنے اور ریسکیو1122کی استعداد کار میں اضافہ کے لئے میں ذاتی حیثیت میں اپنا بھر پور کردار ادا کروں گا، بلا شبہ اتنے بڑے ضلع میں ایمرجنسی سروسز کی فراہمی کیلئے ریسکیو کے پاس دستیاب وسائل ناکافی ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ڈپٹی کمشنر نے تمام تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز کوہدایت کی کہ وہ اپنی تحصیلوں میں موجود ریسکیو اسٹیشن کی وسعت و اضافہ کیلئے اقدامت کریں جبکہ چوک بہادرپور، ترنڈہ محمد پناہ اور نواں کوٹ کیلئے تجویز کئے گئے ریسکیو اسٹیشنز کے لئے بنیادی اقدامات مکمل کریں۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اجلاس میں حادثات کی روک تھام کے لئے جو اقدامات اٹھانے کی سفارش کی گئی ہے انہیں ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔قبل ازیں ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو1122ڈاکٹر عبدالستار نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دوسری مرتبہ مقامی فرٹیلائزر کمپنی کے اشتراک سے موک ایکسرسائز کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں امونیہ گیس کے اخراج کی صورت میں مقامی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ فرضی مشقوں کے ذریعے ضلعی انتظامیہ کے تحت کام کرنے والے اداروں کی مشترکہ طور پر سانحات سے نمٹنے کی تربیت کرائی گئی ہے۔انیوں نے کہا کہ ریسکیو1122سروس کا آغاز12سال قبل ہوا تھا آبادی کے تناسب سے وسائل کی کمی کا سامنا ہے وسائل و افرادی قوت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نئے ریسکیو اسٹیشنز کا قیام ناگزیر ہے جبکہ ضلع کی تمام تحصیلوں کے اہم مقامات پر آگ بجھانے کیلئے فائر ہائیڈرینٹ ہونے چاہیے جبکہ پہلے سے موجود ریسکیو اسٹیشن کی توسیع ضروری ہے۔علاوہ ازیں انہوں نے مختلف امور بارے بریفنگ دی۔اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ چوہدری طالب حسین رندھاوا، سیکرٹری ڈی ڈی ایم اے و ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر عبدالستار، سیکرٹری آر ٹی اے ریاست علی سمیت محکمہ صحت، تعلیم میونسپل آفیسر و دیگر متعلقہ اداروں کے افسران موجو دتھے۔

Comments are closed.