وفا کام آئی نہ جفاکام آئی ،ہندوستانی مسلمانوں کے 72 سال –از..ملک جہانگیر اقبال

0
91

اِس وقت "سیکولر” بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ، باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں انتہاپسند ہندو ٹولیاں بنا کر مسلمانوں کی جان اور املاک پہ حملہ آور ہورہے ہیں جبکہ ریاستی ادارے بشمول پولیس ، فوج یہاں تک کہ الیکٹرونک میڈیا تک انتہاپسندی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم دشمنی پہ اُتر آیا ہے .

میرا ہندوستانی مسلمانوں سے لگ بھگ دس سالہ پرانا تعلق ہے . کشمیر میں مسلمان مریں یا پاکستان میں ہندوستان شرارت کرے ، ہر جگہ ہندوستانی مسلمانوں نے بے حسی کا ثبوت دیا اور بعض اوقات ہندوؤں سے زیادہ بے حسی دکھائی کہ شاید اس طرح انتہا پسند ہندو اُنہیں اپنا سگا وفادار مان لیں پر "کسی” عظیم لیڈر نے تقسیم ہندوستان کے وقت کانگریس پرست مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ

” انکی آنے والی نسلیں اپنی ساری زندگی ہندوستان سے وفاداری ثابت کرنے میں گزار دیں گی ”

اور پھر آپ نے دیکھا کہ نا صرف عام مسلمان بلکہ بڑے بڑے فلم سٹار بھی ہندو بیویاں لانے اور گھروں میں مندر تک بنوا لینے کے باوجود اب تک اچھوت ہی ہیں ، غلطی سے بھی اگر خود پہ یا اپنی قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے بابت بات کرلیں تو انکی فلموں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے .

قائد اعظم اس انتہا پسند ہندو ذہنیت سے بخوبی واقف تھے اسلئے جلد ہی کانگریس سے راستے جدا کرلیے ، جبکہ دوسری جانب گاندھی جی بیچارے خود اس انتہا پسند ہندو ذہنیت کا شکار بن گئے .

اور اب یہاں پاکستان میں تقسیم ہندوستان کے مخالف اپنے لیڈران کی ناکامی اور قائد اعظم سے بغض دکھاتے ہوئے اپنی خجالت یہ کہ کر مٹاتے ہیں کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا ہوتا تو مسلمان تعداد میں زیادہ ہوتے اور زیادہ مضبوط ہوتے .

کاش اگر بغضِ قائد اعظم نہ ہوتا تو کبھی کچھ حساب کتاب کیا ہوتا اور تاریخ پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ تقسیم نہ ہوتی تو بھی کل ملا کر 65 کروڑ مسلمان ہوتے جن میں شیعہ سنی اور پھر ان میں وہابی بریلوی وغیرہ کی تقسیم بھی اتنی ہی شدید ہوتی ؟

اسکے باوجود بنگلادیش پاکستان اور ہندوستان کے ہندو ملا کر ایک ارب پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہندوؤں کی آبادی بنتی؟

انتہا پسند ہندو پھر بھی حکومت میں ہوتے؟

اب اگر یہاں یہ منطق استعمال کریں کہ جی ہندوستان میں پہلے بھی ہندو مسلم ساتھ رہے ہیں تو جناب ایسا تب ممکن ہوا کہ مسلمان حکومت میں تھے ، مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان کو اپنا ملک اور ہندوؤں کو اپنی رعایا سمجھا ، ان میں اسلام اور خدا کا خوف موجود تھا لہٰذا انہوں نے ہندوؤں کی نسل کشی نہیں کی ، اسی لیے ہندو مسلم ایک ساتھ رہ سکے ۔

پر اقتدار میں موجود انتہا پسند ہندوؤں کا تو نظریہ ہی اکھنڈ بھارت ہے ، یہ پورے برصغیر میں اپنا راج بنانا حق سمجھتے ہیں ، نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور دیگر اقلیتیں بھی سرکاری ہندو حکومت کے شر سے محفوظ نہیں ہیں ۔

لہٰذا قائد اعظم کے بغض میں مبتلا حضرات بچوں والی لولی لنگڑی منطق استعمال کرنا چھوڑ دیں جسے برصغیر کے مسلمانو کی اکثریت ستر سال قبل ہی کچرا دان میں پھینک چکی ہے . اب اگر آپ یہ بہانہ بنا کے خجالت مٹائیں گے کہ دیکھو پاکستان بھی تو دو ٹکڑے ہوگیا ..

تو نالائقو پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی دوسرا اسلامی ملک بنگلہ دیش ہی بنا نا کہ بھارت میں ضم ہوا ، یعنی قائد اعظم کا نظریہ تو پھر بھی قائم رہا ، قائد کا نظریہ مسلمانو کا اپنا ملک تھا جو ہندوؤں سے الگ ہو ، یہ وہ نظریہ ہے جو رہتی قیامت تک زندہ اور تازہ رہے گا .

شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کا احسان مانو کہہ ایک آزاد ملک کے باشندے ہو جسے اپنی مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ وگرنہ تمہارے بغضِ قائد میں مبتلا لیڈران کی بات برصغیر کے مسلمان مان لیتے تو آج ماسوائے قسمت کو رونے کے اور کوئی چارہ نہ ہوتا .

سلام ہے اُن تمام مسلمانو پہ جنہوں نے قائد اعظم کو رہبر بناتے ہوئے بھارت سے ہجرت کی اور نئے وطن کے مطالبے کو طاقت بخشی ، سلام ہے قائد اعظم محمد علی جناح کی دوراندیشی کو جو انہوں نے ہندوستان میں رہنے والے ایک تہائی مسلمانو کو جداگانہ ، آزادانہ شناخت بخشی ۔

باقی احسان فراموش ، چھوٹی ذہنیت والے لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جن کے چھوٹے دماغ اتنی حیثیت نہیں رکھتے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا احسان تسلیم کرسکیں .

آخر میں بحیثیت مسلمان یہی دعا ہے کہ اللہ پاک بھارت اور کشمیر کے مسلمانو پہ رحم فرمائے اور انہیں ہندو انتہاپسند ذہنیت سے آزادی نصیب کرے۔ آمین

وفا کام آئی نہ جفاکام آئی ،ہندوستانی مسلمانوں کے 72 سال

تحریر:ملک جہانگیر اقبال

Leave a reply