عجب محبت کی غضب کہانی–از—نسیم شاہد

0
88

اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی ،اچانک وہ غیر متوقع طور پر میری طرف بڑھی ،اس نے سب کے سامنے مجھے جپھی ڈالی اور میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئے

آج پرانی تصویروں میں سے ایک تصویر کیا ملی ،غضب ڈھا گئی دل کے تار ہلا گئی ۔ایمنڈا سیلی کی یاد تازہ ہو گئی اور میری بزدلی کی بھی کہ میں عشق کی خاطر اپنی زمین چھوڑنے سے ڈر گیا ۔1987 کی بات ہے میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی ۔

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں ایشیا فاونڈیشن نے انگلش لینگوئج سنٹر قائم کیا ۔جس کا انچارج ایک امیریکن ڈگلس بروکس کو بنایا گیا ۔ایک دن وہ مجھے صدر بازار کینٹ میں ملا اور پھر ہم دوست بن گئے ۔اس نے گلگشت میں گھر لے لیا ،اچھے زمانے تھے وہ موٹر سائیکل پر گھومتا ،میرے پاس بھی آجاتا ۔اسے ملنے کیلئے اس کے دوست اور سہیلیاں امریکہ اور یورپ سے آتیں ۔وہ خوب پیتے پلاتے اور میں سائیڈ پر بیٹھا پھوکے مزے لیتا ۔

انہی دنوں امینڈا سیلی لندن سے آئی ،وہ ایک بھارتی نثراد عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو لندن میں مقیم تھا ۔ڈگلس نے اسے کہا یہ نسیم ہے ملتان کا انسائیکلو پیڈیا ،تمہیں پورا شہر دکھا دے گا ۔وہ روزانہ یونیورسٹی چلا جاتا اور ہم موٹر سائیکل پر ملتان کی سیر کرتے ۔ایک ہفتہ گزرا کہ مجھے لگا ایمنڈا کو عشق کا دورہ پڑنے لگا ہے ۔

ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا تم نے شادی کیوں نہیں کی ؟ میں نے جھٹ کہا کوئی ملے گی تو کر لوں گا ،اس پر اس نے بے ساختہ پوچھا ،،کیا اب بھی ؟ ،، .میں جماندرو بھولا اس کی بات نہ سمجھا،بات آئی گئی ہو گئی ۔سچی بات ہے اتنے عرصے میں میں بھی اس کی باتوں ،اداوں اور مسکراہٹوں کا عادی ہوتا جا رہا تھا ،

پھر وہ دن آیا جب اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے پوچھا ،، نسیم کیا تم مجھ سے شادی کرو گے ؟،، ہائے ہائے کیا بم تھاجو اس نے مجھ پر گرایا ۔میں نے کہا مگر کیسے ،تم عیسائی ہو میں مسلمان تم لندن رہتی ہو میں ملتان ،، اس نے کہا ،، نو پرابلم میں کنورٹ ہو جاونگی ،، ۔میں نے کہا مگر تم ملتان میں نہیں رہو گی اور میں لندن نہیں جاسکتا ۔

اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا ،، کیا میری خاطر بھی نہیں ؟،،.بڑا جانکاہ لمحہ تھا ۔میں نے کہا سوچ کربتاوں گا ۔اس نے کہا میرے پاس وقت نہیں میں نے دو دن بعد چلے جانا ہے ،میں نے کہا اچھا ایک دن تو سوچنے دو ۔گھر گیا تو ساری رات کروٹیں لیتے گزری ،سوچیں ہی سوچیں ،کیا ایک اجنبی لڑکی کیلئے اپنی ماں چھوڑ دوں جو میرے تن کے روئیں روئیں سے واقف ہے ۔کیا بہن بھائیوں کو خیر باد کہہ دوں ،کیا اپنی مٹی اور شہر کی بوباس سے کنارہ کشی اختیار کر لوں ،ناں بھئی ناں مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا ۔

صبح ہوئی تو میں ایمنڈا سیلی سے ملنے گیا ،باتوں باتوں میں اسے کہا میں تم سے شادی نہیں کر سکتا ،اس کی آنکھوں میں مایوسی عود کر آئی ،، مگر کیوں ؟،، میں نے کہا میری ماں نہیں مانے گی ۔اس نے جھنجھلا کے کہا ،کیا مطلب زندگی تمہاری ہے تم نے گزارنی ہے ۔میں نے کہا ایمنڈا تم نہیں سمجھو گی ،

جب میری ماں جوان تھی تو اس نے میرے لئے زندگی واقف کی اب میں جوان ہوں تو مجھے اس کیلئے زندگی وقف کرنی ہے ،میری اس بات پر اس کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی ،اس نے بے ساختہ مجھے گلے لگایا اور کہا ،،نسیم آئی لو یو ،You Really Posses a wonderful Soul ،، .اگلے دن اس نے جانے کا پروگرم بنا لیا ۔

میں ،ڈگلس اور مشترکہ دوست عارف قریشی اسے چھوڑنے ملتان ائرپورٹ گئے ۔اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی ،اچانک وہ غیر متوقع طور پر میری طرف بڑھی ،اس نے سب کے سامنے مجھے جپھی ڈالی اور میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئے ،بس اس کے بعد اس وقت میرے پاس کہنے کو کچھ تھا نہ آج ہے ۔

عجب محبت کی غضب کہانی–از—نسیم شاہد

Leave a reply