شبِ یاس میں ضیائے آس ۔۔۔ رضی الرحمن جانباز

میں جیسے ہی ریاضی کا پرچہ دے کر کمرہ امتحان سے باہر نکلا مجھے اپنا ایک سینئر ساتھی راہداری میں کھڑا نظر آیا۔ اس کے چہرے پر چھائی گہری پثمردگی اور مایوسی دیکھ کر میں نے اس سے پرچے کی بابت کوئی سوال نہ کیا۔ لیکن وہ مجھے ملتے ہی پھوٹ پڑا اور روہانسے انداز میں اپنے پرچے کی خرابی کا احوال سنانے لگا۔ کینسر کی آخری سٹیج پر زندگی سے ہارے ہوئے ایک مایوس مریض کی طرح وہ ناامیدی کی آخری سٹیج پر آگے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا۔ اس کی زبان سے نکلتے ہوئے ناامیدی سے لبریز جملے میرے کانوں سے ٹکرا کر فضاء کی پر سکون لہروں میں ارتعاش پیدا کر رہے تھے۔ جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکا تو میں اس سے گویا ہوا "بتاؤ تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کرتے وقت کتنی مرتبہ ناکامی کا سامنا کیا تھا؟” کہنے لگا "نو سو ننانوے مرتبہ۔” میں نے کہا "اگر وہ بھی تمھاری مثل پہلی دوسری ناکامی کے بعد ناامید ہو جاتا اور کہتا کہ یہ مجھ سے نہ ہو پائے گا تو وہ کبھی بلب ایجاد نہ کر سکتا۔” مختصر یہ کہ میں نے اسے مایوسی کے متعفن جوہڑ سے نکال کر امید، ہمت اور جذبے کے پاکیزہ چشمے سے اشنان کروانے کی سعی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی جب وہ مجھے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر آج میں یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں تو تمھاری وجہ سے ہوں۔
معزز قارئین! مایوسی ایک ایسا گناہ ہے جو لذت سے تہی دامن ہے۔ آخر مایوسی کو کفر کیوں قرار دیا گیا؟ آخر کیوں اللہ نے بنی نوع انسان کو ناامیدی سے حکما روکا ہے؟ درحقیقت ناامید ہونا اللہ کی رحمت کا انکار ہے۔ مایوسی کا مطلب اس رحمت خداوندی کا انکار ہے جو اس کے غضب پر ہاوی ہے۔ مگر صد افسوس! کہ آج ہر سمت مایوسی و ناامیدی کے تعفن سے معاشرے کی فضاء بوجھل ہے۔ آج طلباء سے لے کر حکومتی ایوانوں تک تمام شعبہ ہائے زندگی اور عوام کے تمام طبقات میں یاس و ناامیدی کے ڈیرے ہیں۔ آج اگر ایک طالب علم کو دیکھیں تو وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے، کسان اپنی زراعت سے، صنعت کار اپنی صنعت سے، نوجوان روزگار سے، الغرض کہ ہمارے عوام مہنگائی، بے روزگاری، توانائی کے بحران، ڈالر کی اونچی اڑان، سیاسی و مذہبی فرقہ واریت اور کہیں عصبیت و لسانیت کی وجہ سے مایوس نظر آتے ہیں۔ یاد رہے مایوسی ہمیشہ ابلیس کی طرف سے ہوتی ہے۔ ابلیس کا کام بنی نوع انسان کو اللہ کی رحمت سے ناامید کرنا ہے۔ اور جب انسان رب کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے مستقبل سے، سونے جاگنے سے، چلنے پھرنے سے، اپنی مصروفیت و فراغت سے، جزاء و انعام سے، موت و آخرت سے حتی کہ اپنی زندگی سے بھی مایوس ہو جاتا ہے۔ اور پھر عموما اس یاس و ناامیدی کا نتیجہ خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے، معاملہ پھر صرف خودکشی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ذلت و رسوائی کا ایک طویل سلسلہ عذاب الہی کی صورت میں شروع ہو جاتا ہے۔
معزز قارئین! ستم تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس شب یاس میں ضیائے آس دکھانے والے مفقود ہیں۔ چہار سو آدھا گلاس خالی دیکھنے اور دکھانے والے ہیں۔ ہر سمت ایسے لوگوں کی بھیڑ ہے جو سادہ لوح عوام کو ملک و قوم کے حوالے سے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کا منفی کردار جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی، معاشرتی، انتظامی اور سیاسی کمزوریوں کے متعلق عوام الناس کو آگہی دینا میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مثبت پہلؤں کو یکسر ہی نظر انداز کر کے تصویر کا صرف ایک رخ ہی دیکھایا جائے۔ قوموں پر کڑے وقت آتے ہی ہیں، لیکن تاریخ صرف ان کے نام درخشندہ حروف میں لکھتی ہے جو مشکل حالات میں ڈھارس بندھانے والے ہوتے ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کا پرچار کرنے والوں کا نام تو ملک و قوم کے مجرموں کی فہرست میں آتا ہے۔
غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں پر کڑا وقت تھا۔ دس ہزار کا ٹڈی دل مدینہ کی نوزائیدہ ریاست کو نگل جانے کے لیے آیا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے حالات انتہائی پتلے تھے۔ کہیں فاقہ کشی کا یہ عالم تھا کہ پیٹ پر پتھر بندھے تھے اور کہیں منافقوں اور غداروں نے پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ کلیجے منہ کو آ رہے تھے۔ ایسے دگرگوں حالات میں رہبر اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چٹان پر ضربیں لگاتے ہوئے فارس، روم اور یمن کی فتح کی بشارتیں دے کر صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم کی ڈھارس بندھائی اور انھیں تابناک مستقبل کی نوید سنائی۔
معزز قارئین! آج ہمارے معاشرے کو بھی ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو مایوسی کے ظلمت کدوں میں امید کے دیپ جلائیں۔ آج ہمارے طلباء کو ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو روشن مستقبل کی نوید سے ان کے جذبوں کو جلا بخشیں۔ آج ہمارے کسان کو، صنعت کار کو، مزدور کو، کھلاڑی کو، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو حوصلہ اور جذبہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بقول اقبال:
ذرا نم ہو یہ مٹی تو بڑی زرخیز ہے ساقی
اور یہ سب امید، جذبہ اور حوصلہ دینے کے لیے کوئی خلائی مخلوق نہیں اترے گی۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کو امید دلائیں۔ ایک ہارے ہوئے شخص کے جذبوں کی راکھ کو چنگاری دیں، کہ نہیں! تم جیت سکتے ہو۔ ایک انتہائی نگہداشت کی یونٹ میں پڑے مریض کو امید دلائیں کہ نہیں! تم ابھی جی سکتے ہو۔ امتحان میں ناکام ہونے والے طلباء کو بجائے ملامت کرنے کے یہ کہہ کر ڈھارس بندھائیں کہ کیا ہوا جو اس بار فیل ہو گئے محنت کرو آئندہ ان شاءاللہ کامیاب ٹھہرو گے۔ لوگوں کے رویوں سے مایوس شخص کو تلقین کریں کہ مخلوق سے توقعات اور امیدیں ختم کر کے خالق سے امیدیں وابستہ کر لو کبھی مایوس نہیں ہو گے۔ مایوسی ایک ایسا ناسور ہے جو انسان کی صلاحیتوں کو سلب کر لیتا ہے۔ مایوس شخص ہر وقت ڈپریشن کا شکار رہتا ہے۔ایسا شخص خود بھی پریشان رہتا ہے اور دوسروں کی پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس لیے ہم نے خود بھی ہمیشہ رحمت خداوندی سے پرامید رہنا ہے اور لوگوں کو بھی مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر امید کے اجالے میں لانا ہے۔ کیونکہ ہمارا رب ہمیں حکم دیتا ہے "لا تقنطو من رحمة الله” (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو جانا)۔ ناامید تو وہ لوگ ہوں جن کا رب نہ ہو۔ ہمارا تو رب الحي و القيوم ہے اس لیے ہم کیوں ناامید ہوں۔

Comments are closed.