ہر سُو بکھرا ہوا وبا کا خوف دِن بہ دن بڑھ رہا ہے اس مرض سے بچنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
یہ سب ہماری بھلائی کے لئے کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن۔۔
اے وقت کے حکمران سنو۔۔۔
لاک ڈاؤن سے ہم بیماری سے تو بچ جائیں گے لیکن بھوک سے مر گئے تو اُس کا حساب کون دے گا؟؟
غریب عوام کی موت کا ذمدار کسے ٹھہرایا جائے گا؟
حکومت نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ ہم بہت زیادہ مدد تو نہیں کر سکتے ہیں اتنا پیسہ تو ہے نہیں ۔۔۔
اور جو حزب اختلاف پارٹیاں ہیں جو کئی عربوں کھربوں ڈالر کی ملکیت ہیں انہوں نے اس مشکل وقت میں کتنا پیسہ داؤ پر لگایا؟؟
کس نے رات چھپ کے لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچایا؟؟
اگر کچھ مدد کی بھی گئی تُو اُس کے لیے بھی پہلے کئی کئی اجلاس ہوئے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی گئی ۔۔۔
اور پھر کہیں جا کر اپنے علاقوں کے کچھ لوگوں کو فوٹو گرافی کے ساتھ راشن دیا گیا۔۔۔
حکومت نے غریب عوام تک راشن پہنچانے کے لیے اب تک کئی اجلاس کر دیے اور اب بھی کہا گیا کہ یہ معاملات ریجسٹریشن وغیرہ کے مراحل میں ہے ۔۔
افسوس ہے اس وقت کے امیر طبقہ کی خاموشی پر ۔۔۔۔۔
اور اگر غریب عوام کی مدد کے لیے کچھ پیسہ دینے کا کہا بھی گیا تو صرف 2,3 ہزار کی مدد ۔۔۔۔
بھلا اتنے پیسوں میں ایک مہینے کا خرچ کیسے ممکن ہے ؟
چلو اتنا ہی سہی مگر دو گے کب ؟؟؟
جب بھوک سے نڈھال عوام سڑکوں پر آجائے گی
جب عوام چوری چکاری پر اُتر آئے گی
جب چھینا جھپٹی شروع ہو جائے گی
غریب عوام کا جو بھوک سے بُرا حال ہو رہا ہے تو یقینا اب سے کچھ دنوں بعد یہ حال بھی شروع ہو جائے گا ۔۔۔
ایسے حالات پیدا کیوں نہ ہوں یہاں زیادہ آبادی دیہاڑی دار طبقے کی تھی کوئی مزدوری کرتا تھا، کوئی رنگ کرنے والا،کوئی پہاڑیوں پر کام کرنے والا کسی کی چھوٹی موٹی دکان تھی ۔۔۔یہ وہ لوگ تھے جو روز کا روز کما کر لاتے تھے تو ہی شام کو کھانا کھاتے تھے ۔
اب یہ سب بند ہے گھر سے کوئی نکل نہیں سکتا کام پر کوئی جا نہیں سکتا تو پھر کھائیں گے کہاں سے
اور راشن پہنچانے کے لیے اجلاس پر اجلاس ہوئے جا رہے ہیں لیکن ملے گا تب شاید جب عوام بھوک سے مرنے لگے گی ۔۔۔
اور پھر رہی بات حق،حق دار تک۔۔۔۔
تو یہ بات تو میں نے اپنی زندگی میں پوری ہوتی دیکھی ہی نہیں
پہلی بات تو یہ کہ غریب تک مدد پہنچتی ہی نہیں اگر پہنچ بھی جائے تو مثال کے طور پر اگر 100 ہے تو غریب آدمی تک پہنچتے پہنچتے 30 رھ جائیں گے۔۔
سنو لوگو۔۔۔۔
اگر یہ ہی حال رہا تو آنے والا دور اس سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے اس بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ۔۔۔
ہم صرف حکومت کو ہی بلیم نہیں کر سکتے جو پیسے والے ہیں عام لوگ اُن کو بھی اس مشکل وقت میں حکومت اور غریب عوام کا ساتھ دینا ہو گا
یاد رکھنا۔۔۔
زندگی نا رہی تو پیسہ کس کام کا؟؟
جو دے سکتے ہیں مدد کر سکتے ہیں تو اب کریں کیوں کہ یہ وقت ہے کھلے دل سے مدد کریں غریب لوگوں کی دعائیں سمیٹ لیں۔۔
اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق بھی خوش ہو گی ۔۔
زیادہ نا صحیح اپنے گھر کے آس پاس غریب لوگوں کا پتہ کریں اُن کی مدد کریں پھر محلے کے لئے پھر اسی طرح اپنے گاؤں اور قصبے کے لئے آگے بڑھیں ۔۔۔
گھبرانا نہیں جتنا لوگوں پر لگاؤ گے اللہ تعالیٰ اتنا مال عطا کریں گے اتنی برکتیں اور نیکیاں سمیٹتے چلے جائیں گے۔۔۔۔
اس ساری صورتحال کے باوجود کُچھ ایسے فلاحی ادارے بھی ہیں جنہوں نے اب تک غریب عوام کی مدد کے لیے کافی حد تک راشن کا انتظام کیا اور کچھ نے رات کے اندھیرے میں چھپ کے لوگوں کی مدد کی اللہ تعالیٰ اُن کو اس کا بہت اجر عظیم عطا فرمائے گا۔۔۔
لیکن پھر بھی جتنی ملک کی آبادی ہے اُس کے لیے حکومت،عوام سب کو نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا پھر ان شاء اللہ ۔
اللہ نے چاہا تو اس بیماری اور غربت سے ضرور نجات حاصل ہو گی ۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
حکومت، لاک ڈاؤن،اور غریب عوام
تحریر: ساجدہ بٹ