اسلام آباد : بڑے عرصے بعد این ایف سی ایوارڈ کوپھرمتنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، ادھرذرائع کےمطابق کل سے ایک وفاقی وزیرکی طرف سے این ایف سی ایوارڈ پراعتراض کئے جانے کے بعد ایک نئی بحث بھی چھڑگئی ہے ، اس بحث کے ساتھ ساتھ اہم اٹھارہویں ترمیم پربھی کافی سیرحاصل بحث ومباحثہ جاری ہے،

تازہ ترین بحث میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہےکہ اس میں وفاق کو نقصان اٹھانا پڑرہا ہے جبکہ صوبوں کوان وسائل کی تقسیم کاری میں بہہت زیادہ مراعات دی گئی ہیں ،

اس تازہ بحث میں کہا گیا ہےکہ صوبوں کا اس ایوارڈ میں 57.5 فیصد ہے ،جبکہ اس کے مقابلے میں‌وفاق کے پاس صرف 42.5 فیصد ہے اور ساتھ ہی صوبوں کو اضافی گرانٹ بھی دی جارہی ہے۔۔ مالی سال 2018-19 کے نظرثانی شدہ تقسیم کار کے مطابق ، صوبوں کو درج ذیل اضافی فوائد دیئےگئے ہیں‌، جن میں‌ قدرتی گیس پر ترقیاتی سرچارج اور خام تیل پر رائلٹی – 94 ارب ڈالر

2018 کے طئے شدہ طریقہ کارکے مطابق بلوچستان کو 100 فیصد حصہ ملا جبکہ محصولات کی وصولی میں کمی کے سبب دیگر صوبوں کو صرف 91 فیصد حصہ ملا۔ اس کے علاوہ جو سیلز ٹیکسز حاصل ہوئے وہ کچھ اس طرح ہیں‌ کہ صوبوں کو تقریبا 23 237 بلین روپے ملے۔ سندھ 120 بلین روپے ، پنجاب 100 ارب روپے ، کے پی 11 ارب روپے اور بلوچستان 6 ارب روپے ملے

وفاقی حکومت کی طرف سے گلگت بلستان اورآزاد کشمیر میں جو تفویض کئے گئے وہ بھی 140 ارب روپے بنتے ہیں، اس کے علاوہ سندھ کو ضلعی ٹیکس کی مد میں 14 ارب روپے کا حصہ بھی مل گیا، اس کے علاوہ کے پی میں دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے 37 ارب روپے کی اضافی رقم مل گئی

آج کی ہونے والی اس بحث میں کہا گیا ہے کہ وفاق کے مقابلے میں‌ صوبے زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ موجودہ وسائل کے ساتھ ، وفاقی حکومت قرض کی ادائیگی بھی کررہی ہے اورملک بھر میں ترقیاتی کام بھی کروارہی ہے تو اس حوالے سے وفاق کے پاس وسائل بہت کم ہیں –

اس کے علاوہ وفاق ملکی دفاع پربہت زیادہ خرچ کررہا ہے ، ملک بھر میں سبسڈی کی مد میں بھی رقم وفاق فراہم کررہا ہے ، لیکن اس کے باوجود صوبے کوئی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے اورصرف وفاقی حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی حصے پرہی اکتفا کررہے ہیں،

صوبے اپنے حصے کے وسائل کو استعمال میں لانے کےلیے کوئی زیادہ متحرک بھی نہیں دکھائی دیتے ،

نظرثانی شدہ تخمینہ بجٹ مالی سال 2018-19 کے مطابق ، پنجاب کے ذریعہ ٹیکس جمع کیا گیا – 208 ارب ، سندھ – 221 ارب ، کے پی – 20 ارب ، بلوچستان – 8 ارب۔ تاہم ، وہ غیر ٹیکس محصول وصول کرتے ہیں۔

آج ہونے والی بحث میں یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ وفاق صوبے کے لیے تو تمام ترقربانی دے رہاہے لیکن صوبوں نے آج تک وفاق کے ساتھ وہ کردار ادا نہیں کیا جوکرنا چاہیے تھا ، وفاق کو مالی خسارے اوردیگرادائیگیوں کی صورت میں‌ صوبوں کی طرف سے آج تک ایک روپے بھی نہیں ملا

آج اسی حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے لئے صوبوں اوروفاق کے درمیاں وسائل کی تقسیم پرنظرثانی کی ضرورت ہے ، جس کے لیے اس ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیئے

نئ تجویز کئے گئے طریقہ کار کے مطابق اب یہ وسائل کچھ اس طرح‌ہوں گے ، وفاق ، صوبے اورپھرمقامی حکومتیں تاکہ سارے اپنے اپنے حصے کے ترقیاتی کام کرنے کے لیے وسائل خود پیدا کریں

اس بحث میں وفاق کے ذمے بعض اخراجات مثلا مواصلات ، دفاع ، قرضوں کی ادائیگی سمیت دیگرامور کے لیے صوبے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالیں تاکہ سب مل کراس ملک کی ترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرسکیں

موجودہ سطح کے مالی سال 2019-20ء پر صوبوں کا حصہ اور 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کے پہلے فارمولے کے مطابق اضافی رقم تقسیم کی جائے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 160 میں 3 اے کو ختم کرنا کے حوالےسے بھی بات چیت ہوئی ہے

Shares: