غزوہ بدر اسباب سے زیادہ رب پرتوکل کا درس دیتا ہے ،کفار کے مقابلے کے لیے ہروقت تیاررہنے کا حکم دیا گیا ہے ، علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی گفتگو

0
147

لاہور :غزوہ بدر اسباب سے زیادہ رب پرتوکل کا درس دیتا ہے ،کفار کے مقابلے کے لیے ہروقت تیاررہنے کا حکم دیا گیا ہے ، علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی گفتگو،اطلاعات کے مطابق آج رمضان ٹرانسمیشن میں گفتگوکرتے ہوئے علامہ عبدالشکورحقانی نے غزوہ بدر کے اسباب اوراس کے اثرات پربات کی اور گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ غزوئہ بدر میں حضور سید عالم ﷺ اپنے تین سو تیرہ (313) جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔

یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی (80) میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالمؐ اور صحابہ کرامؓ نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔

میدانِ بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ اور جان بازو جان نثار سپا ہی کچھ اس بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی عرصے میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کردیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی مستجاب دعاﺅں کے صدقے اور طفیل اور خدائے رب ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بہ دولت کفار کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔

کفار کے تقریباً ستر(70 ) آدمی قتل ہوئے اور 70 افراد کو قیدی بنادیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر دوزخ کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جاکر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14خوش نصیب سر فروش مجاہدین نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھ (6) مہاجرین اور آٹھ (8) انصار تھے۔

جنگ بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد مدینہ منورہ اورگردو نواح کے دشمنانِ اسلام بڑے خوفزدہ ہوئے جس سے مسلمانوں کو اور اسلام کو بہت بڑی زیادہ قوت وتقویت ملی۔ اس جنگ کی عظیم فتح نے مسلمانوں کے قدم انتہائی مضبوط ومستحکم کر دئے –

علامہ حقانی ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ‌نے مسلمانون‌کو ہروقت تیار رہنے کا حکم دیا ہے ، اس لیے ہمین‌چاہیے کہ اسلام کے دشمنوں سے مقابلے کے لیے تیار رہیں‌

 

 

علامہ سید حسنین موسوی نے غزوہ بدرکے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ بدر ہوئی ہے ، کفار نے یہ جنگ مسلمانوں پر زبردستی مسلط کی تھی اور وہ اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صرف ایک معبود حقیقی کی عبادت کی جائے۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ مکہ میں بت پرستی زوال پذیر نہ ہو اور پوری عرب قوم بت پرست ہی رہے۔ کیوں کہ یہی ان کے آباؤ اجداد کا مذہب تھا۔ دعوت توحید دینے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر آنحضورؐ نے اﷲ کے حکم سے امت مسلمہ کو ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔ چناں چہ مکہ سے تمام مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ پہنچے کے بعد بھی کفار نے مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور ابھی انہیں نئی سرزمین پر منتقل ہوئے دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ کفار مکہ نے مسلمانوں کی مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا۔

حضرت انس ؓکا بیان ہے کہ آنحضرت ؐ نے لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کیا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسلمانوں کا مختصر سا قافلہ جس کی کل تعداد313 تھی، ان میں انصار اور مہاجر سب شامل تھے اور قبائل میں اوس اور خزرج بھی شامل تھے۔ اس قافلے کے ساتھ 60 اونٹ، 3 گھوڑے، 60 زرہیں اور چند تلواریں تھیں۔ جب کہ دشمن کی تعداد 1000 نفوس پر مشتمل تھی اور وہ ہر طرح سے لیس تھے۔ ان کے پاس 700 زرہیں، 70 گھوڑے، لاتعداد اونٹ، بے شمار تلواریں اور نیزے تھے۔ یہ کفار ابوسفیان کی قیادت میں آئے تھے اور ان دونوں افواج کا آمنا سامنا 17رمضان المبارک2ھ بدر کے مقام پر ہوا۔ 313 مسلمانوں کا یہ قلیل لشکر اس جنگ میں جس جوش و خروش کے ساتھ لڑا وہ قابل دید تھا۔ انہوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کو ایک ہی دن میں شکست فاش سے دوچار کیا۔

علامہ موسوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ غزوہ بدر اس بات کی تعلیم دیتا ہےکہ مسلمان مرد ہویا عورت اس کو دشمنان اسلام سے لڑنے کی ٹریننگ ہواور اس کو چاہیے کہ وہ اسلحہ چلانا سیکھے

Leave a reply