غزوہ بدر حق و باطل کا معرکہ ، مسلمانوں کے لیے کئی سبق لے کر آیا ، رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمشن
باغی ٹی وی :آج رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمشن میں آج بہت اہم موضوع پر بات چیت ہوئی .اس موقع پر سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا کہ سترہ رمضان کو کفر اور اسلام کا معرکہ رو نما ہوا جس سے دنیا میں پہلی دفع حق اور باطل کھل کر آمنے سامنے تھے. مسلمان جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہ بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں تھے.مکہ والوں نے مسلمانوں کے اموال ، جائیداد اور گھروں پر قبضہ کر لیا تھا. مسلمان بہت مالی مشکلات کا شکار تھے . اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مالی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے مکہ کے مہاجر اور مدینہ کے انصار کے درمیان تاریخی بھائی چارہ قائم کیا تھا. تاکہ مہاجرین اس حالت سے نکل آئیں اور انکی مد د ہوسکے.
اس مواہدے کے بعد ایک نو مولود اسلامی ریاست وجود میں آئی تھی ، جس کو کافر برداشت نہیں کرتے تھے. انہوںنے اس نو مولود ریاست کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا قافلہ ترتیب دیا تھا .جو کہ ملک شام جانا تھا .اس میں ہر فرد نے سرمایا کاری کی . اس قافلے کا مالی حجم پچاس ہزار دینار تھا. اس میںیہ طے پایا تھا کہ اس قافلے کا کمایا ہوا تمام سرمایا اس نئ جنم لینے والی تحریک کو مٹانے کے لیے استعمال کیا جائے گا. .تاکہ یہ تحریک شروع ہوتے ہیں ختم کردی جائے.
جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قافلے کی خبر ہوئے تو آپ نے اس کا پیچھا کرنے کےلیے ایک لشکر ترتیب دیا . بدر کے مقام پر دونوں قافلے ایک دوسرے کے سامنے مد مقابل ہوئے. مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جبکہ کفار 100 کی تعداد میں تھے ، مسلمانوں کے پاس کافروں کے مقابلے میں ہرطرح سے مال اور جنگی سازو سامان کم تھا.
ان حالات میں سالار لشکر حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ اگر یہ چند لوگ آج ختم ہوگئے تو تیر نام لیوا کوئی نہیں ہوگا . اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور انہیں فتح سے ہمکنار کیا . اس دن کو یوم فرقان بھی کہا جاتا ہے . یعنی کفر اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا دن .
اس دن سے ہمیں بہت سے اسباق ملتے ہیں. ایک رواداری کا سبق، دوسرا درست مشورہ ماننا ، اور تیسرا سبق کہ مشکل وقت میں اللہ سے دعا کرنا اور اسی سے مانگنا ہے . صبر اور استقامت کا رستہ اپنانا اور ایک سبق یہ بھی ہے کہ لکھنا پڑھنا کتنا ضروری ہے . بےشک اس سے کفار سے مدد بھی لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے..








