ہانگ کانگ :چمگادڑ سے کرونا پھیلنے کی تصدیق ہوگئی ہے ، نئی تحقیق سے نئی بحث چھڑگئی،اطلاعات کے مطابق نئے نوول کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ بیماری کس جاندار سے انسانوں میں آئی اور اب لگتا ہے کہ ہانگ کانگ کے سائنسدانوں نے اس کا جواب تلاش کرلیا ہے۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر ایشیا میں پائے جانے والی چمگادڑوں کی ایک قسم سے پھیلا۔یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ میں خلیات کے ایک ایسے گروپ کو تیار کیا گیا جو چینی ہارس شو نامی چمگادڑ کی آنتوں میں پائے جانے والے خلیات سے مماثلت رکھتا تھا۔

چمگادڑوں کی یہ قسم چین، نیپال، ویت نام اور بھارت سمیت متعدد ممالک میں پائی جاتی ہے۔محقین ان خلیات کی ساخت کو نئے نوول کورونا وائرس یعنی سارس کوو 2 سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ چمگادڑوں کی یہ قسم اس وائرس کو بھی لے کر پھرتی ہے جو سارس کا باعث بنتا تھا اور نئے نوول کورونا وائرس سے ملتا جلتا ہے۔

محققین نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ نتائج کو اکٹھے ملا کر دیکھا جائے تو اس کا مطلب نکلتا ہے کہ چینی ہارس شو چمگادڑ ہی ممکنہ طور پر سارس کوو 2 کی اصل میزبان ہے۔اس تحقیق کے نتائج جریدے انٹرنیشنل جرنل نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اصل چمگادڑوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ وائرس کی بنیاد کی تصدیق کی جاسکے۔اس تحقیق کے دوران چمگادڑ کے آنتوں کی ساخت کو لیبارٹری میں بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
خیال رہے کہ نئے نوول کورونا وائرس کی ا بتدا امریکا اور چین کے درمیان تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے۔

امریکا کی جانب سے چین کو اس وبا کے پھیلنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا جبکہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیان نے جواب میں کہا تھا کہ یہ وائرس امریکی فوج نے پھیلایا۔

اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ نیا کورونا وائرس مریضوں کے پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ آنتوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔اس مقصد کے لیے محققین نے ہانگ کانگ کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج 68 سالہ مریضہ کے فضلے کا تجزیہ کیا جس کو بخار، گلے میں سوجن، کھانسی اور ہیضے کی شکایات تھیں۔

اس مریضہ میں نہ صرف کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی بلکہ سائنسدانوں نے فضلے سے وائرس کو بھی الگ کرلیا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آنتوں مین بھی انفیکشن ہوا تھا۔اس سے قبل گزشتہ ہفتے چین کی ایک تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا تھا کہ چمگادڑوں سے یہ وائرس پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں میں پہنچ گیا۔

اس تحقیق میں ساؤتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی اور گوانگ ڈونگ لیبارٹری فار لینگنان ماڈرن ایگریکلچرل کے سائنسدانوں نے کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ سارس کوو 2 جو کووڈ 19 کا باعث بنتا ہے، میں 2003 کے ایک حیوانی وائرس سارس کوو اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس آراے ٹی جی 13 کا سیکونس پایا جاتا ہے۔

جریدے جرنل نیچر میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا ‘چمگادڑوں میں متعدد اقسام کے کورونا وائرسز موجود ہوسکتے ہیں، مگر سارس کوو 2 کا دوسرا میزبان اب بھی واضح نہیں’۔تحقیق کے مطابق ایک ملائیشین پینگولین میں ایک کورونا وائرس کو الگ کرنے پر اس کے ای، ایم، این اور ایس جینز کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس کیا گیا تو یہ بالترتیب 100 فیصد، 98.6 فیصد، 97.8 فیصد اور 90.7 فیصد ملتے تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ خاص طور پر پینگولین کورونا وائرس میں خلیات کو متاثر کرنے والے ایس پروٹین بھی نئے نوول کورونا وائرس سے ہوبہو مشابہت رکھتا ہے،بس ایک غیر اہم امینو ایسڈ فرق ہے۔سائنسدانوں نے 17 سے 25 ملائشین پینگولینز میں تجزیہ کرنے کے بعد اس پینگولین وائرس کو شنااخت کیا تھا اور اسے الگ کرنے کے بعد یہ نتیجہ بیان کیا گیا۔

جنوری کے آخر میں ایک جینیاتی تجزیے میں ثابت ہوا تھا کہ انسانوں میں پھیلنے والے وائرس کا جینیاتی سیکونس چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے 96 فیصد تک ملتا جلتا ہے۔

Shares: