اسلام آباد: جسٹس عیسیٰ کیس: ‘قانون دکھادیں کہ جج کو اپنی اور اہلخانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے’،سپریم کورٹ نے سوال پوچھ کرطبقات کی تقسیم کردی،اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کا معاملہ زیر سماعت ہے اور اس میں آج بھی حکومتی وکیل فروغ نسیم سے عدالتی بینچ نے مختلف سوالات کیے ہیں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کی ہیں۔

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے کہا کہ قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد کو ظاہر کرنا ضروری ہے؟ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔

بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاقی کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔

اس کیس کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکومتی وکیل سے 4 سوالوں پر جواب طلب کیے تھے جبکہ فروغ نسیم نے ساتھ ہی ایک ‘گمشدہ’ دستاویز پیش کرکے سپریم کورٹ کو بھی حیران کردیا تھا کیونکہ اسی کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے پاس موجود تھا۔آج اس معاملے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو حکومتی وکیل فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں عدالتی سوالات کا جواب دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو عبدالوحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔ واضح رہے کہ صحافی عبدالوحید نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) میں 10 اپریل 2019 کو ایک درخواست دائر کی تھی۔

اپنے دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ8 مئی کو عبدالوحید ڈوگر نے لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا، جس میں میں لندن کی جائیدادوں کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فروغ نسیم یہ بتائیں لندن کی جائدادوں کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں، وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں، اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤں گا۔فروغ نسیم نے کہا کہ 1988 کے بعد برطانیہ میں پر جائیداد کا ریکارڈ اوپن ہے اور اے آر یو کو قانون کی مدد حاصل ہے۔

سپریم کورٹ کے فل بینچ کی طرف سے اس سوال کے بعد کہ کیا جج کو اپنی اوراہلخانہ کی جائیداد ظ‌اہرکرنا ضروری ہے اس کے بعد سوشل میڈیا پرایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اگرسیاستدان اوردیگرسرکاری ملازمین کے لیے یہ ضروری ہے توپھرسپریم کورٹ کے جج مقدس گائے کیوں ہیں ،

اس کے علاوہ یہ بھی بحث زورپکڑ رہی ہےکہ ان ریمارکس سے یہی ظاہرہوتا ہے کہ جج اپنے پیٹی بھائی کو بچاکراصل میں اپنا تحفظ چاہتے ہیں اوراپنی جائیدادیں ظاہرکرنے سے بچ جائیں گے ،

یادرہےکہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بارے میں بھی یہ ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے سوشل میڈیا پر یہ بحث سامنے آئی تھی کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ جسٹس عمرعطا بندیال سے جاتے جاتے یہ درخواست کرگئے تھے کہ جوکچھ بھی ہوجائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں بچانا ہے ،

Shares: