کرونا کی وبا اور بحیثیت مسلمان ہمارا کردار بقلم :غلام زادہ نعمان صابری

0
169

کرونا کی وبا اور بحیثیت مسلمان ہمارا کردار
غلام زادہ نعمان صابری
چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والی وبا کورونا نے ساری دنیا میں تباہی مچادی۔ اس مصیبت کی گھڑی میں غیر مسلموں نے اپنی قوم کےلئے ہرطرح کی سہولیات پیدا کیں،تمام شعبہ ہائے زندگی نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کسی نے ایک دوسرے کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا۔
پاکستان بھی اس موذی وبا کا شکار ہوا یہاں بھی لوگ اس سے متاثر ہوئے۔
حکومت نے حفاظتی اقدامات کے تحت عوام کو کچھ تجاویز پر عمل کرنے کا کہا تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جاسکے اور اس سے بچنے کا واحد حل احتیاطی تدابیر تھیں جن پر عمل کر کے بچا جاسکتا تھا۔
ان احتیاطی تدابیر میں ماسک اورسینیٹائزر کااستعمال اور سماجی رابطوں سے پرہیز کرنا تھا۔
بحیثیت مسلمان ہم نے آپس میں ایک دوسرے کی سہولت کے لئے کیا سوچا اور ایک دوسرے کی کتنی مدد کی اور خاص کر ان حالات میں ہمارے کاروباری طبقے کا کیا کردار رہا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
الاماشاءاللہ کچھ لوگوں نے بہت اچھا کردار ادا کیا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے انسانیت کو پس پشت ڈال کر شیطانیت کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے پہلے ماسک اور سینیٹائزر بلیک کئے
10 روپے میں ملنے والا ماسک 100 روپے سے بھی بڑھ کر بیچا گیا، 50 روپے والا سینیٹائزر 200روپے میں بیچا گیا
ڈیٹول کو بازار سے ایسے غائب کر دیا گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔
ڈرگ مافیا نےکلوروکوئین ٹیبلٹ کی ڈبی 3000 روپے کی کردی. کسی حکیم نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے سناء مکی کا قہوہ پینے کا مشورہ دیا سناء مکی کے درختوں سے پاکستان بھرا پڑا ہے اس کی کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن سناء مکی 200 روپے کلو سے 2400 روپے کلو تک بک رہی ہے بلکہ بعض علاقوں میں یہ کئی گنا زیادہ مہنگی بیچی جا رہی ہے۔
پھر ڈرگ مافیا نے ایک انجکشن بارے میں شوشہ چھوڑا کہ یہ کورونا کےلئے مفید ہے جس کی قیمت 3 لاکھ سے 6 لاکھ تک پہنچا دی گئی.
پلازمہ جو مفت امدادی طور پر دیا جارہا تھا اسے لاکھوں روپے میں بیچا جانے لگا.
پھر ناجائز منافع خوروں اور انسانیت کے دشمنوں کو پتہ چلا کہ پرائیویٹ سکولوں کو N95 ماسک اور ٹمپریچر گن لینا لازم ہے تو 800 والی گن مارکیٹ میں 22000 روپے میں بکنے لگی.
انسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانےوالوں نےکبھی آٹا مہنگا کردیا تو کبھی چینی ، کورونا کو بہانہ بنا کر غریب عوام کا مہنگائی کر کے خون چوسا گیا۔ حکومت اگر کوئی چیز سستی کرتی بھی ہے تو اسے بازار سے غائب کر دیا جاتاہے ۔
ایمان کے دعویدار ایمانداری کالبادہ اوڑھ کرغریب اور مظلوم عوام کا بڑی بے دردی سے استحصال کر رہےہیں کیا ان کو کورونا سے کوئی خوف نہیں یا کورونا ان کا کوئی خالو پھوپھا لگتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہم اسلام کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں لیکن ہمارے کرتوت دیکھ کر یہودو نصاری بھی شرماتے ہیں
جنہیں ہم اسلام سے خارج سمجھتے ہیں وہ اپنی قوم کےلئے کس قدر مخلص ہیں ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہم مسلمانوں کا سارا کردار وہ سمیٹ کرلے گئے ہیں۔
ہم ایسی بےحس اور مردہ ضمیر قوم ہیں کہ
اللہ کے عذاب کو سامنے دیکھ کر بھی بے ایمانی اور بے غیرتی سے باز نہیں آتے
کورونا کی وبا کے ان دنوں میں بحیثیت مسلمان ہمارا کردار نہایت منافقانہ رہا ہے جو شرمناک ہے۔

Leave a reply