امتحاں جاری ہے…!!!
[تحریر✍🏻:جویریہ بتول]۔
اس دنیا میں جو انسان بھی آیا ہے،اس نے اسے امتحاں گاہ ہی پایا ہے…
اور یہ دنیا واقعتًا امتحاں گاہ ہے…
یہاں انساں جس انداز میں اپنا وقت گزار کر جاتا ہے اسی مناسبت سے اس کا رزلٹ بھی سامنے آئے گا…
یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی آزمائش سے ضرور گزر رہا ہے…
کوئی مال و زر کی فراوانی ہونے کے باوجود اولاد جیسی چیز کے لیئے ترس رہا ہے۔
کوئی تنگدستی کے باوجود گھرانہ پھولتا پھیلتا دیکھ رہا ہے…
کوئی بے اولادی کے غم میں جلتا ہے تو کوئی اولاد پا کر آزمائش میں ہے…
کسی کو شادی میں تاخیر کا سامنا ہے تو کوئی شادی کر کے اُلجھنوں کا شکار ہے۔
کوئی ڈگریاں ہاتھ میں لیئے خوار پھرتا ہے،تو کوئی ان پڑھ ہو کر عیش کے مزے لوٹتا ہے…
کوئی غربت میں سکون کا حامل تو کوئی تونگری میں ڈپریشن کا مریض ہے…
کوئی گھر بنانے کے چکر میں رُلتا ہے تو کوئی بنے گھر کو اُجاڑنے کی جستجو میں دکھائی دیتا ہے…
کتنی ہی بہنیں اپنے مسائل شیئر کرتی ہیں کہ شوہر بیویاں رکھنے کے باوجود بے راہرو ہیں،غلط عادات کا شکار ہیں،گھر پر توجہ نہیں دیتے وغیرہ۔
کوئی بے راہروی کو ہی زندگی سمجھتا کوئی لغویات پہ ادائے تکریم اختیار کرتا ہے…
کوئی شکوؤں کے طومار لپیٹ دیتا ہے اورکوئی صبر و رضا کی ردا اوڑھ لیتا ہے…
کوئی اپنی ہی ذات پر سب کُچھ لٹا دیتا ہے تو کوئی اپنی ذات پر کسی کو ترجیح کی صفت سے مالا مال ہے…
کوئی ہر کسی پر گھٹیا تبصرے کو وتیرہ بنا لیتا ہے، کوئی سب سہہ کر بھی خاموشی کو اَدا بناتا ہے…
کوئی کسی کی غلطی سے درگزر کر رہا ہے،کوئی کسی کی سرِ عام تذلیل کرتا ہے…
کوئی محبتوں کے مرہم رکھ دیتا ہے تو کوئی لفظوں کے تیر کے زخم لگا دیتا ہے…
کوئی بے غرض ملتا تھا تو کوئی مطلب کے بغیر بولتا ہی نہیں…
کوئی عاجزی سے سدا جھکا رہتا ہے،کوئی انا کے خول سے نکلتا ہی نہیں…
کوئی رشتوں کی قدر و قیمت کو سمجھتا،کوئی انہیں سراسر بے وقعت گردانتا ہے…
کوئی ماں باپ کی خدمت میں مگن،کسی کو ان کی پرواہ ہی نہیں…
اور وہ اولادوں کا چہرہ دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں…
کسی کو روٹی وافر ملی ہے تو ڈاکٹر تجویز نہیں کرتا،اور جسم بیماریوں کا گھر بن چکا ہوتا ہے…
کسی کو تنگی تو ہے مگر بیماریوں کا نام نہیں…
کوئی آسائشات کے باوجود بے خوابی میں مبتلا،کوئی زمیں پر بھی لیٹ کر خواب دیکھتا ہے…
کسی کی اولاد غریبی میں بھی فرماں بردار،کوئی ڈگریاں دلا کر بھی تربیت سے تہی دست…
کوئی بنگلے اور پراپرٹی بنا کر انہیں خالی چھوڑ کر جا رہا ہے تو کوئی ساری عمر واجبی سے گھر میں پر سکون گزار رہا ہے…
کوئی حلال کے لیئے ہی جیتا ہے تو کوئی حرام اکٹھا کرنے پر مرا جا رہا ہے…
کوئی چاہ کر بھی کوئی نعمت نہیں پا سکتا،کئی خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں… خواہش تب پوری ہوتی ہے جب ضرورت نہیں ہوتی…
تب انساں کہتا ہے کہ دانت تھے تو چنے نہیں تھے،چنے ملے ہیں تو دانت نہیں رہے…!!!
غرض جو جس مقصد کے لیئے پیدا کیا گیا ہے وہ اسی کی طرف بڑھا جا رہا ہے…
ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں،مثبت اور منفی…!!!
ہمیشہ امتحاں اور آزمائش میں خیر کا پہلو تلاشیں،مثبت رُخ دیکھنے کی کوشش کریں…
یہ دنیا اللّٰہ تعالٰی نے اس لیئے بنائی ہے کہ لیبلوکم…!!!
وہ جس حال میں بھی رکھتا ہے وہ پر حکمت ہے…
ہماری عقل اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے…
جب یہی بات ہم نظر انداز کر دیتے ہیں تو ہمارے اندر نا شکری،حسد،ٹکراؤ کی کیفیت جنم لیتی ہے…!!!
وہ الحکیم ہے اور انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا کرتا،بس ہمیں کرنا یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا کردار تلاشنا ہے،
اپنی ذات کے مثبت اور خیر والے پہلو سے دنیا کو مستفید کرنا ہے…
شکر کا رویہ اور انداز اپنانا ہے…
آزمائش پر صبر اختیار کرنا ہے…
تو پھر یاد رکھیئے کہ ان چیزوں کی جزا دنیا اور آخرت میں بے حساب ہے…
اللّٰہ تعالٰی نے اپنی رضا کی راہیں ہمیں دکھا دی ہیں اب اپنا کردار ڈھونڈنا ہمارا کام ہے:
اِنَّا ھَدَینٰہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِرً وَّ اِمَّا کَفُورًا¤
"ہم نے اسے راہ دکھا دی،اب خواہ وہ شکر گزار بنے،اور خواہ ناشکرا…!!!”
دنیاوی آزمائشوں پر ایمان کی نیت سے صبر اختیار کرنے والوں کو نوید ملی:
وَ جَزٰھُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَّ حَرِیرًا¤
"اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے…”
یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے،سورج کی حدت دیکھیں گے نہ سردی کی شدت…!!!
(الدھر)۔
یہ موسموں کی تلخیاں اور گرم و سرد جھونکوں کا تعلق اسی دنیا سے ہے،جو مختصر سی ہے،
لہذا یہاں اپنی قسمت پر راضی رہنا سیکھیئے،
رضا بالقدر،شکر،اور اُمید سحر کو اپنا زادِ سفر بنا لیجیئے…!!!
شکوہ و شکایت کی اُٹھتی لہروں پر صبر و خاموشی کا بند باندھ دیجیئے…!!!
کہ یہ دنیا اک جدوجہد کا نام ہے،
سکون و آرام کا گھر رب کی جنت ہے…!!!
==============================
[جویریات ادبیات]۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

Shares: