کوٹلی(نمائندہ باغی ٹی وی)پاکستان مسلم لیگ(ن) کے بزرگ رہنما، سابق صدر ووزیراعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان نے کہا ہے کہ فاروق حیدر کو پروموٹ کر کے میرٹ کی خلاف ورزی کااعتراف کرتا ہوں،فاروق حیدر پورس کا ہاتھی ہے جو اپنوں کو ”دغا”دیتا ہے۔فاروق حیدر نے میرے بارے میں جو کہا یہ رب تعالیٰ کی طرف سے میرٹ پامال کرنے پرمیرے لیے سزا ہے،میں اپنی اس غلطی پر اللہ تعالیٰ اور آزادکشمیر کی عوام سے معافی کا طلبگار ہوں۔میں آج جہاں بیٹھا ہوں کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا،سوچتا ہوں فاروق حیدر نے ”مردہ گھوڑا”کہہ کر میرے سامنے جو آئینہ رکھا ہے اُس میں صاف نظر آرہا ہے کہ واقعی گھوڑوں کا دور گزر گیا اب”گدھوں”کا دور دورہ ہے۔سردار عتیق خان نے بھی سینئرزکی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ گھوڑا جب بوڑھا ہو جائے تو اُسی گولی مار دینی چاہیے،فاروق حیدر کے بھی وچار اپنے بڑوں بارے عتیق خان ہی جیسے ہیں،مجھے فاروق حیدر کی فکر نہیں ہے لیکن مسلم لیگ بارے فکر مند ہوں کہ قیادت فاروق حیدر جیسے بیہودہ شخص کے پاس رہے گی تو اُس کے ”شر”سے جماعت کیسے محفوظ رہے گی۔گورمانی سے لیکر کرمانی تک سب کو جانتا ہوں، کون کیا تھا اور کیا ہے؟ سب کچھ باری آنے پر بتاؤں گا۔ جو لوگ میرے بارے میں کچھ جانتے ہیں وہ بولیں اور میں جن کے بارے میں جانتا ہوں میں بھی بولوں گا،میں جب بولا تو پھر نہ کہنا ننگا کردیا۔فاروق حیدر کو دعوت دیتا ہوں وہ دو تین شریف آدمیوں کا پینل بنا لیں جس پر اُسے بھروسہ ہواور مجھے بھی بھروسہ ہو، وہ ہم دونوں سے سوال کریں اور جوابات لیکر بتائیں گے غلط کون ہے؟ اگر میں غلط ثابت ہوا تو معافی مانگ لوں گا۔فاروق حیدر نے مجبور کیا تو بتا رہا ہوں جس شخص کی سات بہنوں میں ایک بھی اُس سے راضی نہ ہو وہ دوسروں کے خلاف کیسے بات کر سکتا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سمیت جن افراد نے موجودہ حالات میں آواز بلند کی میں اُن کا شکر گزار ہوں۔ان خیالات کا اظہار اُنھوں نے روزنامہ”کشمیرلنک” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سردار سکندر حیات خان نے کہا کہ آڈیو لیکس کے بعد دو روز تک میں انتظار کرتا رہا کہ شاید فاروق حیدر رابطہ کرکے اپنی پوزیشن کلیئر کریں مگر میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ میں ردعمل نہیں دینا چاہتا تھا لیکن انتظار کے بعد بھی جب فاروق حیدر نے تردید نہیں کی تو یہی ثابت ہوا کہ جو شخص ملاقات کرکے دس بارہ لوگوں کے سامنے مجھے کہتا ہے کمرے میں بٹھا کر جوتے مار لیا کریں ،ناراض نہ ہوا کریں اُس نے باہر جاکر اپنے دل میں رکھا میرے خلاف زہر اُگلا ہے اسی لیے آج دوروز بعد میں اپنا ردعمل دے رہا ہوں۔ سردار سکندر حیات خان نے کہا کہ فاروق سکندر میرے پاس آیا تھا اُس نے پوچھا کہ بتائیں اس حالت میں کیا کروں ؟ تو میں اُسے کہا آپ اور سردار نعیم خان کی سیاست سے میرا کوئی تعلق نہیں جو مناسب سمجھتے ہو کرو۔فاروق سکندر کا بیان پڑھا ،دل کا اطمینان ہواکہ اُس نے تہذیب کے دائرے میں رہ کر اپنا خوبصورت موقف پیش کیا۔سردار سکندر حیات خان نے بتایا کہ یہ میرا گناہ تھا کہ میں فاروق حیدر کو پروموٹ کیاجس کی سزا آج مجھے اُس کے سخت الفاظ سن کر تکلیف کی صورت مل رہی ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو۔ ”شر”شرارت کی انتہا ہوتی ہے اور میں اس وقت فاروق حیدر کے شر کی زد میں ہوں۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا، فاروق حیدر نے مجھے جو کچھ کہا، وہ میرٹ کی خلاف ورزی کرکے ایک نالائق شخص کو پروموٹ کرنے کی سزا ہے اور میری اس میرٹ کی پامالی کے باعث آزادکشمیر کے لوگوں پرفاروق حیدر جیسا شخص وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہے جو بد قسمتی ہے بدبختی ہے۔ایک خاتون کے بارے میں جو نازیبا زبان فاروق حیدر نے استعمال کی وہ قابل مذمت اور قابل گرفت عمل ہے، فاروق حیدر خان شاید بھول بیٹھے ہیں کہ اُن کی والدہ اور بہن بھی میدان سیاست پیش پیش رہی ہیں ، کاش فاروق حیدرایک خاتون کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل اپنی والدہ اور بہن کے ذہن میں لے آتے تو اُسے یہ دن دیکھنا پڑتا نہ ہی موصوف کو پروموٹ کرنے پر مجھے آج اس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔مجھے یاد ہے جب 70کے انتخابات کے بعد مخصوص نشست پر فاروق حیدر کی والدہ کو ممبر اسمبلی بنا رہے تھے لیکن ہم پاس مطلوبہ تعداد نہ تھی۔ کوٹلی سے آزاد حیثیت سے منتخب ممبر اسمبلی چوہدری اعظم جنہوں نے راجہ اکرم کو شکست دی تھی اور مجھ سے اس لیے ناراض تھے کہ میں نے اُنھیں مسلم کانفرنس کا ٹکٹ دینے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی تھی، میں چوہدری اعظم کے پاس گیا جو مجھ سے ناراض تھے، اُن سے بات کی اور فاروق حیدر کی والدہ سعیدہ خانم کے لیے ووٹ لیا تب جا کر فاروق حیدر کی والدہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئیں۔فاروق حیدر خان کو سینئر وزیر بنایا، جب الیکشن ہار گئے تو مشیر بنا کر حکومتی امور میں شامل کیا، مسلم لیگ(ن) بنانے کے لیے غوث علی شاہ، عبدالقادر بلوچ،راجہ افضل،ذوالفقار کھوسہ،راجہ ظفرالحق،بیگم نجمہ حمیداور دیگر دوستوں کی مدد سے نواز شریف کو راضی کیا اور اتنی محنت کے بعد جو جماعت قائم کی اُس کی باگ ڈور فاروق حیدر کے ہاتھ میں دی ،یہی سوچ کر کے فاروق حیدر عزت دار خاندان کا سپوت ہے مگر مجھے افسوس ہوا کہ اس شخص نے والدین کی تربیت سے کوئی اثر نہ لیا اور میرے سمیت تمام ساتھیوں کا اعتماد خاک میں ملا دیا۔ گزشتہ دنوں جب موصوف میرے پاس آئے تو کہنے لگے آپ ناراض نہ ہوا کریں بھلے میں گھر میں بلاکر اس کمرے میں جوتے مار لیا کریں، بھلا کوئی شریف شخص کسی کو گھر بلا کر جوتے مار سکتا ہے، فاروق حیدر نے یہ بات جس وقت کی اُس وقت کمرے میں دس سے بارہ دیگر لوگ موجود تھے جس کی گواہی وہ دے سکتے ہیں مگر ملاقات کے بعد واپس جاکر موصوف نے مجھے ”مردہ گھوڑا”کہہ دیا۔ ایک بار سردار عتیق خان بھی اپنے سینئرز کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ گھوڑا جب بوڑھا ہوجائے تو اُسے گولی مار دینی چاہیے، آج فاروق حیدر بھی اپنے بڑوں کے بارے میں عتیق خان جیسے ہی ”وچار”رکھتا ہے۔ مجھے فاروق حیدر کی طرف سے مردہ گھوڑے کہہ کر جو آئینہ دکھایا گیا ہے اُس میں صاف نظر آ رہا ہے کہ آزادکشمیر میں گھوڑوں(سردار ابراہیم خان، کے ایچ خورشید، سردار عبدالقیوم خان، چوہدری نورحسین) کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب ”گدھوں”کا دور دورہ ہے اور گدھے بھی وہ جو چھوٹے قد والے ہیں۔ میں اپنی جماعت کے لیے فکر مند ہوں جس کو بنانے میں بہت محنت کی تھی، فاروق حیدر خان پورس کا وہ ہاتھی ہے جو اپنے ساتھیوں کو دغا دیتا ہے، فاروق حیدر کے ساتھ وابستہ لوگ سن لیں! جو شخص مجھ جیسے محسن کو دھوکہ دے سکتا ہے وہ کسی بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر جماعت بچانا چاہتے ہو تو اس بیہودہ شخص سے جان چھڑاؤ وگرنہ آمدہ الیکشن میں ہماری جماعت کہیں نظر نہیں آئے گی۔فاروق حیدر کا ایک وزیر مشتاق ”منحوس ”ہے وہ کہتا ہے میاں نواز شریف مجھے نہیں جانتا،مشتاق بتائے ! اُس کا اپنا سیاسی پس منظر کیا ہے؟۔اگر مشتاق منہاس کی بات ہی مان لی جائے کہ ”مجھے نواز شریف نہ جانتا ”تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں تو وہ شخص ہوں جس نے نوابزاہ نصراللہ خان، اصغر خان، مفتی محمود اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ،جب میں پاکستان کی سیاست میں متحرک تھا اُس وقت نواز شریف کہاں تھے؟ یہ بات مشتاق منہاس کو بھی پتا نہیں ہوگی۔مشتاق منہاس!مجھے چھوڑوجو آپ کا وزیراعظم فاروق حیدر ہے اس سے پوچھوں کے اس نے ایک بار فون کرکے نوازشریف کے متعلق مجھے نہیں کہا تھاکہ”لوہار کے بیٹے کے ساتھ میں نہیں چل سکتا”۔ میں نے اُس وقت فاروق حیدر سے کہا تھا تم آزادکشمیر کے وزیراعظم ہو اور تمہیں طارق فاروق ،شاہ غلام قادر اور دیگر ساتھیوں نے نواز شریف کو خط لکھ کر بڑی مشکل سے وزیراعظم بنایا ہے وگرنہ نواز شریف تو مشتاق منہاس کو وزیراعظم بنا رہا تھا۔ تم نواز شریف سے کوئی بات نہ کرو جو بھی مسئلہ ہے مجھے بتاؤ میں بات کرلیتا ہوں۔فاروق حیدر جو کل تک نواز شریف کو ”لوہار کا بیٹا”کہتا تھا وہ آج اُس کا بڑا خیر خواہ ہو گیا اور ہم جنہوں نے آزادکشمیر میں مسلم لیگ بنائی اور محنت سے الیکشن میں کامیاب بھی کروایا اُنھیں نوازشریف جانتا ہی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ مشتاق منہاس وزیراعظم نہ بن پانے کا بدلہ فاروق حیدر سے لے رہا ہے اور خوب لے رہا ہے اور لینا بھی چاہیے کہ فاروق حیدر اسی قابل ہے۔ فاروق حیدر خان خود جھوٹا ہے اور مجھے بھی جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا تھا، جب یہ میرا مشیر تھا یہ اُن دنوں کی بات ہے راجہ لطیف میرے پاس کام لیکر آئے ،کام نہیں ہو سکتا تھا اس لیے میں اُنھیں صاف انکار کردیااور وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ میں نے فاروق حیدر سے کہا کہ راجہ لطیف کام لے کر آئے تھے جو نہیں ہوسکتا تھا ،میں نے انکار کیا تو وہ ناراض ہوگئے ہیں تو فاروق حیدر بولا آپ”انکار”نہیں کیا کریں ،کام بے شک نہ کریں لیکن لوگوں کو کہہ دیا کریں کہ کام ہو جائے گا۔فاروق حیدر کی بات میں نے تو نہیں مانی مگر اب جب وہ اقتدار میں آیا ہے تو ایسے ہی جھوٹ بول کے کام چلا رہا ہے۔ فاروق حیدر کی ایک خوبی کہیں یا خامی، وقت گزرنے کے بعد وہ کسی سازش کا حصہ ہو یا جھوٹ بولا ہواُس کا اعتراف خود کرلیتا ہے۔ کوٹلی کے لوگ بھی فاروق حیدر کے متاثرین ہیں، جب میں نے کوٹلی میں اضافی انتخابی حلقہ بنانا چاہا تو ممبران اسمبلی راجہ نصیر اور ملک نواز خان نے مخالفت کی۔ بعدازاں کچھ عرصہ بعد فاروق حیدر نے مجھے بتایا کہ کوٹلی میں اضافی انتخابی حلقہ نہ بنے ،راجہ نصیر اور ملک نواز خان کے ہمراہ میں بھی اس سازش میں شریک تھا۔ایک بار میری حکومت میں جب فاروق حیدر وزیر تعلیم تھے تو میرے خلاف احتجاج کروایا تھا، بعد میں خود فاروق حیدر نے بتایا کہ اساتذہ کا وہ احتجاج اُس نے کروایا تھا۔ میں نے یہ سب باتیں جاننے کے باوجود فاروق حیدر کو سیاست میں پروموٹ کیا، مسلم لیگ کا صدر بنایا، دو بار وزیراعظم بنوایا اور یہی میرا گناہ تھا، میں سمجھا تھا شاید بدل گیا ہوگا لیکن وہ نہیں بدلہ بلکہ اقتدار ملنے کے مزید بے نقاب ہوا۔ میں فاروق حیدر کو خلاف میرٹ پروموٹ کرنے پر رب تعالیٰ اور آزاد کشمیر کے عوام سے معافی کا طلبگار ہوں۔سردار سکندر حیات خان نے یہ بھی کہا کہ فاروق حیدر وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے مظفرآباد میں جاری ہائیڈرل پراجیکٹ کا سہارا لے رہا ہے۔ فاروق حیدر وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے جلوس نکلواتے ہیں، مظفر آباد کے راجہ ممتاز ہیں جو راجہ راجہ عبدالقیوم خان کے رشتے دار ہیں کو میں نے فون کیا اور پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ تو اُس نے کہا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ ڈیم بنیں ۔ فاروق حیدر خان جو پاکستان سے محبت کا دم بھرتے ہیں وہ ڈیم بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ پاکستان ہمارا مقصد حیات ہے اور فاروق حیدر بھی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن جب بھی اُنھیں موقع ملتا ہے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے پاکستان کی کاٹنے کے لیے نام نہاد جلوس اور احتجاج کی” آری” نکال لیتے ہیں۔میں فاروق حیدر سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ یہ جو مہمند ڈیم بن رہا ہے اس کی فنڈنگ سے کیا تم نے بیرون ممالک میں مقیم کشمیریوں کو نہیں روکا؟ یہ کیسی پاکستان سے محبت ہے ؟ ”بغل میں چھری اور منہ میںرام رام” کا عمل اچھا نہیں ہے۔ سردار سکندر حیات خان نے کہا کہ یہ جو فاروق حیدر نے تذلیل کی ہے یہ میرے باپ دادا نے کبھی برادشت نہیں کی تو میں کیسے کر سکتا ہوں۔میں ایک بار پھراعتراف کرتا ہوں کہ یہ قدرت کی طرف سے مجھے سزا ملی ہے کہ میں فاروق حیدر جیسے ابن الوقت، احسان فراموش ہے اور اپنے گھر کا خیر خواہ نہیں ہے اُسے موقع فراہم کیا۔طارق فاروق اور شاہ غلام قادر کو شاباش دیتا ہوں جنہوں نے غلط اور نہ صرف غلط کہا بلکہ اُسے صحیح کرنے کی کاوش بھی کی۔مشتاق منہاس ”دوغلی”گیم کھیل رہا ہے،یہاں کی باتیں وہاں اور وہاں کی باتیں یہاں آکر بتایا ہے، مشتاق منہاس جیسے خطرناک بندوں سے دور رہنا چاہیے تھا لیکن فاروق حیدر نے اُسے بغل میں سجا رکھا ہے اور جن طارق فاروق اور شاہ غلام قادر کو شریک سفر کرنا چاہیے تھا اُن کی اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ فاروق حیدر جو کر رہے ہیں اُس کا خمیازہ بھی وہی بھگتیں گے۔

فاروق حیدر پورس کا ہاتھی ہے جو اپنوں کو ہی دغادیتاہے .سردارسکندرحیات خان
Shares: