سناٹے کی آغوش میں زندگی

بہت صدیاں پہلے کی بات ہے میاں بیوی کا ایک جوڑا ۔۔۔بہت دورکسی سفر پر چلا جا رہا تھا
عورت نے شیر خوار بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا۔ کون جانتا تھاکہ چھوٹے سے خاندان کا یہ سفرایک تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ بیوی بھی اس سوچ سے بےنیاز ۔۔۔اپنے شوہر کے قدم بقدم چلتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟
ہاں البتہ اپنےشویر کی خاموشی اورمتغیر چہرہ دیکھ کروہ کچھ حیران ضرور تھی لیکن ہمت نہ پڑ رہی تھی۔
و ہ سنسان ،بیابان ،کھنڈر اورویران علاقوں سے گزرتے چلےجا رہے تھے۔ ہر طرف سنا ٹا چھایا ہوا تھا۔کہیں سے کسی ذی روح کے آنے کا گمان تک نہ تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ اونچے نیچے ٹیلوں سے گزرتے چلےجا رہے تھے ۔ غیر گنجان آباد ،کالے،خوفناک اور خشک پہاڑ ۔۔۔۔سبزے سے خالی۔۔۔۔اور پانی کا بھی نام و نشان تک نہ تھا۔ بیوی صاحبہ اپنے ہم سفر اور ننھےلخت جگر کے ہمراہ۔۔۔صبر اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔اس امید کے ساتھ۔۔۔۔۔کہ کوئی بستی آجائے گی اوریہ دشوار گزار سفر ختم ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا سفر یے ۔ کافی دور پہنچ کر ایک ٹیلے کے پاس شوہر نے اپنے قدم روک دئے۔ اور اردو گرد کے افسردہ ماحول پر نگاہ دوڑائی ۔ بیوی کو ٹیلے پر بیٹھنے کا کہا ۔ وہ چھوٹے سے معصوم بچے کو لے کر نیچے زمیں پر بیٹھنے گئ۔ وہ سمجھی تھوڑا سستا کر آگے بڑھیں گے۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔یہ کیا؟؟؟شوہر نے ماں بیٹے کے پاس تھوڑی سی کجھوریں اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھا اور منہ موڑ کر چلنا شروع کر دیا۔ بیوی نے آواز دی "ہمیں اس دہشت وحشت والے بیاباں میں یکہ وتنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئ مونس وہمدم نہیں آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں لیکن شوہر نے نہ ہی مڑ کر دیکھا اور نہ ہی کوئ توجہ دی بار بار پوچھنے پر بھی کوئ التفات نہ کیا تو پوچھا،”آپ ہمیں کسے سونپ چلیں ہیں۔کیا اللہ تعالی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے”۔جواب دیا”ہاں” یہ سن کر وہ بڑے حوصلے اور صبر سے بولی پھر تشریف لے جائیے۔وہ اللہ ہمیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ہمیں اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے۔وہ لوٹی اور اپنے کلیجے کی ٹھنڈک کو اس سنسان،بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ گئی۔
قارئین کرام !!یہ کوئ عام خاندان کی قصہ کہانی نہیں بلکہ وہ شوہر…. انبیاء کے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ ، ان کی بیوی اماں ہاجرہ اور نبی ابن نبی حضرت اسماعیل زبیح اللہ تھے۔
اس خاندان نے حوصلے، صبر،استقامت کی وہ اعلی مثال قائم کی کہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے مشعل راہ بن گئی۔
حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اپنے بچے اور بیوی کو وہاں جہاں اب بیت اللہ ہے۔اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہیں بیوی بچوں کی محبت غالب نہ آجائے۔جب حضرت ابراہیم علیہ سلام مقام ثنیہ پر پہنچے تو عجزو انکساری کے ساتھ ہاتھ پھیلا کر دعا کی
” اے ہمارے رب میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تا کہ وہ نماز قائم کریں۔تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں ”
آپ تو یہ دعا کر کے حکم الہی بجا لا کر اپنے اہل وعیال کو اللہ کے سپرد کر کے وہاں سے چلے گئے۔ادھر کیا ہوا؟ ایک بار تو رب تعالی کو آل رسول کی آزمائش مقصود تھی۔حضرت ہاجرہ صبر وشکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں۔جب تھوڑی سی کجھوریں اور پانی ختم ہو گیا۔اب اناج کا دانہ پاس ہے۔نہ پانی کا گھونٹ ۔خود بھی پیاسی ہیں۔بچہ بھی بھوک سے بے تاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا چہرہ کملانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا۔مامتا بھری ماں اپنی تنہائی اور بے کسی کا خیال کرتی،کبھی اپنے ننھے اکلوتے بچے کو دیکھ کر سہم جاتی۔معلوم ہے کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں۔میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں۔آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہ دیکھا گیا تو اٹھی اور پاس ہی صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں۔میدان کی طرف نظر دوڑاتی ہیں کوئی آتا جاتا نظر آئے۔لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف سے واپس آتی ہیں تو اتر کر وادی میں پہنچ کر دامن اٹھا کر دوڑتی ہوئی مروہ پہاڑ کی طرف جاتی ہیں۔اس طرح ساتھ مرتبہ کرتی ہیں۔بچے کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے۔ساتویں مرتبہ کچھ آواز کان میں پڑتی ہے۔لپک کر آواز کی طرف جاتی ہیں تو وہاں حضرت جبرائیل علیہ سلام کو پاتی ہیں۔ انہیں غیبی آواز سنائی دیتی ہے جو ان سے پوچھ رہی ہوتی ہے کہ تم کون ہو؟؟حضرت جبرائیل علیہ سلام نے اپنی ایڑی زمین پر رگڑی۔وہیں ذمیں سے چشمہ ابلنے لگا۔
اب حضرت حاجرہ نے خود بھی پانی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔ اور اس کے آس پاس باڑ باندھنا شروع کردی فرشتے نے کہا تم بے فکر رہو۔اللہ تمہیں ضائع نہیں کرے گا۔جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا گھر بنے گا۔کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ وہاں سے گزرا۔انہوں نے ایک آبی پرندہ دیکھا تو وہ اس خشک اور چٹیل میدان کی طرف بڑھے اور وہاں بہترین اور بہت سا پانی پایا۔اب وہ سب آئے اور کہنے لگے ” اگر مائی صاحبہ اجازت دیں تو ہم یہاں ٹھر جائیں” وہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس ملے۔اور یوں سناٹے کی آغوش میں اللہ تعالی نے زندگی کی رمق پیدا کر دی۔ اور پھر اسی جگہ بحکم تعالی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم سلام نے بیت اللہ تعمیر کیا۔
ہے نا کتنی دلچسپ اور حیران کن کہانی ۔کیسے اللہ تعالی نے ٹیکنیکل طریقے سے اپنے گھر کو آباد کیا۔
اے عورت زات!!تجھے مبارک ہو کہ تیری ہم ذات سے اللہ تعالی نے یہ عظیم کام لیا۔اور بنی نوع انسان کی تمام آنے والی خواتین کی تربیت کا سامان پیدا کیا۔
اماں ہاجرہ سے عورت بہت کچھ سیکھ سکتی ہے جیسا کہ
1۔ اللہ پر توکل
2۔ صبر و استقامت
3۔ شوہر کی اطاعت
4۔ اولاد کی محبت
5۔ بہادری اور شجاعت
6۔ عقلمندی اور معاملہ فہمی
اور سب سے بڑھ کر مناسک حج ان کے نام سے منسوب ہو گئے۔جیسے:
1۔ صفا مروہ کا طواف
2۔ آب زمزم پینا
3۔ مقام ابراہیمی پر دو نفل
4۔ قربانی
5۔ حجراسود کو بوسہ دینا
6۔ رمی کرنا
وغیرہ وغیرہ
بغور دیکھئیے اگر اماں حاجرہ کی صفات کسی عورت میں آجائیں تو وہ دنیا کی کامیاب ترین ہستی بن سکتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس عظیم ماں ہاجرہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
( آمین)

از قلم: مسز ناصر ہاشمی

Shares: