(Islamic concept of democracy)
"اسلام کا تصور جمہوریت”
نادیہ بٹ
اسلام ایک عالمگیر دین ہے جس کی منفرد اور جامع اقدار ہیں۔یہ دین کسی ایک فرد قبیلے گاؤں شہر یا ریاست کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام کائنات کے لئے ذریعہ نجات و رہنمائی ہے ۔
اکثر مصنفین اسلامی سیاسی نظام کا مغربی تصور جمہوریت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں یا پھر اسلامی طرز حکومت کا اصل جمہوری طرز حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلامی نظام کے تمام تر اصول و ضوابط قرآن میں تحریری شکل میں ملتے ہیں جبکہ ان اصول و ضوابط کی عملی شکل حضور *ﷺ* کی حیات طیبہ ہے اس لئے اسلام نے جو طرز معاشرت متعارف کروایا ہے وہ دنیا کے تمام نظاموں سے منفرد مرد اور اپنی مثال آپ ہے اس لئے اسلامی طرز حکومت کا مغربی تصور جمہوریت سے تقابل کرنا یا اسلامی نظام حکومت کو جمہوری قرار دینا اتنا صحیح معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ نہ تو قرآن میں اسلامی طرز حکومت یا سیاسی نظام کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے نہ بادشاہت کا بلکہ صرف اور صرف اسلامی نظام حکومت یا اسلامی طرز معاشرت یا اسلامی تہذیب و تمدن کے نام ہی تاریخی طور پر سامنے آئے ہیں ویسے بھی اگر بغور دیکھا جائے تو اسلامی نظام حکومت کو اصلی جمہوریت کہنا زیادتی ہوگی۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلام نے خلیفہ یا امام کے چناؤ کے لیے نہ صرف امام کی خصوصیات بتائی ہیں بلکہ ووٹر یا سربراہ مملکت کا انتخاب کرنے والوں کی بھی خصوصیات بتائی ہیں۔۔۔۔۔
اسی طرح جمہوریت اکثریت کی حکومت ہے جبکہ اسلام میں اکثریت کی حکومت کا کوئی تصور نہیں ملتا
بلکہ صرف اللہ تعالی جو کہ واحد شریک ہے کے اقتدارِ اعلٰی کا تصور ملتا ہے اس لحاظ سے مغربی یا جدید جمہوریت میں عوام (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرتے ہیں۔
اسلامی نظامِ حکومت میں اللّٰہ تعالٰی کے احکامات کے نفاذ کے لیئے سربراہان اپنی خصوصیات اور کردار کی بنیاد پر چنا جاتا ہے…
اسی لئے اسلامی نظام حیات ایک منفرد نظام ہیں اس کو جمہوری نظام کہنا بالکل ٹھیک معلوم نہیں ہے
*دوسری دلیل……!*
جمہوریت میں پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہوتا ہے حزب اقتدار کا کام قوانین بنانا بھی اور انہیں نافذ کرنا ہے۔
جبکہ حزب اختلاف کا کام حزب اقتدار پر ہر حال میں تنقید جبکہ اسلامی نظام میں نہ تو کوئی حزب اقتدار ہے نہ ہی حزب اختلاف
بلکہ مجلس شوریٰ کا ہر رکن حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہے۔
اسلامی طرز حکومت میں سربراہ مملکت کو براہ راست پرکھنا ہر فرد کا فرض ہے اور اگر وہ راہ راست پر ہے تو اس کی اطاعت بھی ہر فرد پر فرض ہے۔اختلاف کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت نام کی چیز اسلامی طرز حکومت میں موجود نہیں بلکہ اسلامی طرز حکومت جمہوریت سے بھی بہتر اور اعلی نظام حکومت ہے
*تیسری بڑی دلیل…!*
جمہوریت میں عالم اور ان پڑھ کا ووٹ ایک ہی وزن کا حامل ہے جو کہ فطرت کے خلاف بات ہے۔ جبکہ صدر یا وزیراعظم امور سلطنت کے سلسلے میں چپڑاسی یا کلرک سے مشورہ نہیں لیتا بلکہ متعلقہ ماہرین سے ہی مشورہ لیتا ہے
ظاہر ہے کہ ایک چپڑاسی قانون پر لیکچر نہیں سکتا ۔ مختصر یہ کہ اسلامی نظام میں سربراہِ مملکت کو منتخب کرتے وقت ہمیشہ دیانتدار، ایماندار
اور دانشمند لوگ آپس میں مشورہ کرتے ہیں ہیں کیونکہ قرآن میں ارشاد ہے۔
*”علم والے اور جاھل برابر نہیں ہیں”*
جبکہ جدید جمہوریت میں معاشرتی تفاوت کے باوجود عالم اور جاہل کا ووٹ ایک ہی حیثیت کا حامل ہے..!
*اسی پر اقبال رحمتہ اللہ نے کہا تھا*
*”جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں*
*بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے”*
اگر اسلامی نظام کو جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر اسلامی نظام کو اسلامی سوشلزم یا اسلام میں کمیونزم بھی کہہ دینا چاہیئے ۔
کیوں کہ سوشلزم میں بھی بہت سی اقدار اسلامی اقدار سے ملتی جلتی ہیں اسی طرح کمیونزم کی بہت سی اقدار بھی اسلامی نظام سے ملتی ہیں یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ دراصل اسلامی نظام جمہوری نہیں ہے
یہ صرف ایک اسلامی نظام ہے جس کی اپنی منفرد اقدار ہیں ۔
مساوات، رواداری اور قانون کی حاکمیت اپنی اصل حالت میں صرف اور صرف اسلامی نظام میں ہی دیکھی جاسکتی ہے
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقدار ایک جمہوری نظام کی خصوصیات ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں
کیونکہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں عملی طور پر ریاست میں نام نہاد کامیاب ترین جمہوریت برطانیہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔کیا وہاں پر ان کی اقدار یا قانون کی حاکمیت اصلی حالت میں موجود نہیں ہے؟؟
کیا وہاں پر کئی سالوں پر محیط گورے اور کالے کا فرق نہیں پایا جاتا ؟؟
مساوات کے اصولوں کی دھجیاں سب سے زیادہ برطانیہ میں ہی اڑائی جاتی ہیں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ اسلامی نظام اپنے اندر ایک جامعیت رکھتا ہے جس کا اپنا ایک علیحدہ اور منفرد مقام ہے اور اسے دوسرے نظاموں کی مشابہت ثابت کرنا بالکل بیکار ہے۔
*اب کچھ مغربی مفکرین کی آراء پر بھی نظر ڈال لی جائے…….*
ماہر سیاسیات Burkeکا کہنا ہے:
*”اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنا کوئی فطرت یا قانون نہیں ہے کم تعداد بعض اوقات سے زیادہ مضبوط طاقت بھی ہو سکتی ہے اور اکثریت کی حرص کے مقابلے میں اس کے اندر زیادہ مقبولیت بھی ہو سکتی ہے۔”*
جمہوریت کی شرائط اور خوبیوں پر بحث کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں:
*”جمہوریتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شرائط شاذ و نادر ہی پوری ہوتی ہیں’عملی اعتبار سے جمہوریت دراصل جہالت کی حکمرانی کا نام ہے۔اس کی ساری توجہ تعداد پر رہتی ہے ‘کیفیت پر نہیں.اس میں ووٹ گنے جاتے ہیں ‘انہیں تولا نہیں جاتا۔”*
آخری بات:
مذکورہ دلائل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کا طرز حکومت نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی شخصی ‘وہ اپنی مثال آپ ہے اور لازوال ہے۔جدید نظام اس کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ ان میں موجود چند ایک خوبیاں بھی اسی نظام سے مستعارلی گئی ہیں ۔جدید نظاموں سے قطع نظر اسلامی طرز حکومت ہر سقم اور کمزوری سے یکسر پاک قابل عمل نظام ہے۔۔۔!!!








