تا ابد سلامت مان رہے تحریر:جویریہ بتول

0
35

تا ابد سلامت مان رہے…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
چودہ اگست کا دن جوں جوں قریب آتا ہے تو دل میں شکر کے جذبات شدت سے انگڑائی لینا شروع کر دیتے ہیں…اور وہ داستانِ کرب اس احساس کے زخم کو پھر جگا دیتی ہے کہ ہمارے آباء نے اس وطن کی تعمیر میں کتنی گراں تکالیف برداشت کی تھیں…؟اور آج ہم اک آزاد وطن کے باسی ہیں…!!!
یہ خنک ہوائیں،گاتی فضائیں،طوفانوں کو روکتے ساحل، آزاد ،اُڑتے اور گاتے طیور،
چہکتے مکین،لہلہاتی فصلیں،
عبادات کی آزادی، پرسکون معمولات،آسان معاملات،خوشگوار سفر،دلکش تفریح گاہیں،آزاد اقلیتیں دل میں بہاروں کے خوشگوار جھونکوں کا احساس بھر بھر دیتے ہیں…
اور اتھاہ گہرائیوں سے اللّٰہ تعالٰی کے شکر کے کلمات لبوں پر مچلنے لگتے ہیں…
بانیانِ پاکستان کے درجات کی بلندی کے لیئے دعائیں نکلنے لگتی ہیں کہ جن کی دور اندیشی، حکمت اور تدبر نے ہماری کشتی انگریز و ہندو کی دوہری غلامی کے منجدھار سے نکال کر ساحل تک پہچانے کی لازوال کوششیں کیں…
اس سفرِ آزادی میں شریکِ سفر لوگوں نے کیا کیا قربانیاں دیں ان کا احاطہ کسی مختصر سی تحریر میں ہر گز ممکن نہیں ہے۔
وہ ایک خونچکاں داستاں تھی جس میں گھرانوں کے گھرانے،
خاندانوں کے خاندان لُٹ گئے۔
لاکھوں مسلمانوں کو سفاک ہندو اور سکھ جتھوں نے جس بے دردی سے صفحۂ ہستی سے مٹایا تھا تاریخ میں دلچسپی رکھنے والا ہر طالب علم اس کو بخوبی تلاش اور پڑھ سکتا ہے…
تب آنکھیں کھلی اور پھٹی رہ جاتی ہیں کہ یہ آزادی کس قدر گراں قیمت ہے کہ جان کی بازی ہار دینا بھی پھر مشکل نہیں لگتی…!!!
یہ کتنی عظیم نعمت ہے مگر یہ بے مول نہیں ملا کرتی…
وہ کربناک اور دلدوز داستان پڑھنے کے بعد زندہ ضمیر انسان تمام عمر کے سجدوں سے بھی اس نعمت کا شکر بجا نہیں لا سکتا…
یہ کوئی ہفتوں یا مہینوں کی تحریک نہیں تھی بلکہ عشروں کی جہدِ مسلسل کا نتیجہ تھا یہ پاک وطن…!!!
لیکن قیام پاکستان کے قریب کی تحریک میں
شاعرِ مشرق نے 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں اس ضرورت پر زور دیا تھا۔
لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی نے 1933ء میں ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں لفظ پاکستان پہلی دفعہ استعمال کیا گیا۔
23 مارچ 1940ء لاہور میں منٹو پارک کے مقام پر پاس ہونے والی قرارداد لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان مشہور ہوئی نے مسلمان لیڈران کو ایک خاص نظریہ پر مجتمع کر دیا تھا۔
جس کی بنیاد پر اس سفر کا آغاز کیا گیا۔
محمد علی جناح رحمہ اللّٰہ پر ہندو کی تنگ نظری کھل کر واضح ہو گئی تھی۔
یہ بابرکت اور عظیم تر مقصد سے مزین سفر اپنی بنیاد کی مضبوطی پر اپنے واضح مطالبے 1940ء کے بعد جلد ہی پایۂ تکمیل تک جا پہنچا لیکن اس سفر کی داستانِ عزیمت کو مدنظر رکھنا بہرحال ہماری ذمہ داری ہے کہ کس مقصد کی خاطر ہم نے یہ پاک وطن حاصل کیا تھا؟
اور اس کی بنیادوں میں کتنا پاکیزہ لہو بہا اور اس دھرتی کے سینے پر کتنے آنچل قربان ہوئے؟
آج بھی ہمارا ازلی دشمن اور ہمارے وجود کے درپے رہنے والا ملک کبھی سرحدوں پر،کبھی ملک کے اندر،کبھی بھائی چارے اور دوستی کے ڈھونگ سے دنیا کو دھوکہ دینے میں مصروفِ عمل ہے:
مجھے مغلوب کرنے کو مرے دشمن کی جانب سے
کبھی نفرت کے تیر آئے،کبھی چاہت کا دام آیا…
لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی کا سفر بے معنی شروع نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے واضح مقاصد اور لازوال نظریات ہوا کرتے ہیں اور ہم نے جس لازوال نظریہ کی بنیاد پر یہ وطن حاصل کیا تھا اسی کا دفاع کر کے ہم اپنے دیس کی جغرافیائی،معاشی،معاشرتی،
اخلاقی اور دفاعی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں…
ہمارے تمام مسائل کا حل اس نظریہ میں ہی پوشیدہ ہے…
ہمارے نوجوانوں کو دشمن کے واروں کا اسیر ہونے کی بجائے اس وطن اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی کے لیئے دن رات ایک کر دینا چاہیئے کہ جس وطن نے ہمیں آزاد سانسیں لینے کے لیئے یہ صاف ہوا فراہم کی…
ہماری پہچان،آن اور شان ہے…!!!
ہمارا ایک نام،وقار اور کردار ہے…
جس اتحاد و یکجہتی سے کل اس کا قیام ممکن ہوا تھا،آج اسی سے اس کا دفاع اور مضبوط ہونا ممکن ہے…
ہم سب کو وطنِ عزیز کے مسائل مل بیٹھ کر قومی یکجہتی سے حل کرنا ہوں گے۔
مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
یہ مٹی بڑی زرخیز ہے اور یہاں کے باسیوں نے دنیا میں اپنا آپ منوایا ہے اسے ذرا نم کرنے کی اور اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری کا بھر پور احساس زندہ کرنے کی ضرورت ہے…
حکمران ہوں یا عوام ہر اس اقدام سے گریز لازم ہے کہ جس سے ملک کے اندر انتشار یا عدم اتفاق کی فضا بننے لگے…!!!
ہر میدان میں اس کی کامیابی کے لیئے وہ طب کا ہو یا تعلیم کا…
ایجادات کا ہو یا دفاع کا…
سیاست کا ہو یا معاشرت کا سنجیدگی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں اس پیارے دیس کا وقار بلند ہو…
دشمن کی سوچ اور ایجنڈوں کے آلۂ کار بننے کا نتیجہ سراسر رسوائی ہے…
ہمیں اپنے قلوب و اذہان کو صاف کر کے اس عظیم نظریاتی سرزمین کے لیئے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کا عہد کرنا ہو گا کہ یہ گھر بڑی بھاری قربانیوں کے عوض ملا تھا اور اب اس کی حفاطت کا بوجھ ہم میں سے ہرہر شہری کے کندھوں پر ہے…ہمیں دل کی نامحکمی کو دور کر کے ان پھیلتی دیرینہ بیماریوں کا علاج دریافت کر کے آگے کی جانب قدم بڑھانا چاہئیں…
محب وطن لوگوں کی قدر و قیمت اور ان کے مسائل کو بھر پور طریقے سے حل کیا جائے…
کہ کثرت ہم مدعا وحدت شود…
اور یہی وحدت کسی بھی قوم کی مضبوطی،وقار اور بقاء کی علامت بن جایا کرتی ہے…!!!
اسے سینچا خوں سیاروں نے
اور جان لُٹائی پیاروں نے…
تا ابد سلامت مان رہے…
میرے دیس کی اُونچی شان رہے…!!!
اس کے رُخ پر بہاریں مسکرائیں…
اس کی کلیاں اور شگوفے سدا چٹکیں…
یہ چمن یونہی لہلہاتا رہے اور خزاؤں کو کبھی یہاں گزرنے کی بھی مجال نہ ہو…
ہمیں صدقِ دل،عملِ پیہم اور وفا کے جذبات سے معمور ہو کر اس گلستان کی آبیاری میں کردار ادا کرنا ہے…
یقیں محکم،عمل پیہم،محبت فاتح عالم…
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں…!!!
==============================

Leave a reply