قربانی کی اہمیت و فضیلت تحریر:عبیر عطاء الرحمٰن علوی

0
46

عبیر عطاء الرحمٰن علوی
قربانی کی اہمیت و فضیلت:
⦁ قربانی رسول کریمﷺ کا دائمی عمل، سنت مؤکدہ اور سنت ابراہیمی بھی ہے ۔ لہٰذا ہر صاحب استطاعت کو اس سنت کی پیروی کرنی چاہیے۔
(بخاری:5553، الصافات : 99 تا 108)
⦁ ایک آدمی ایک سے زائد قربانیاں کر سکتا ہے (بخاری: 5553)
⦁ ایک جانور پورے گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جائے گا۔(بخاری:7210)
⦁ کسی کو قربانی کے لیے جانور عطیہ کرنا جائز ہے ۔ (بخاری:5547)
⦁ جس شخص کو قرضہ ادا کرنے کی امید ہو وہ قرضہ لے کر بھی قربانی کر سکتا ہے اسی طرح استطاعت ہونے پر مقروض کے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
(مجموع الفتاویٰ : 26/305)
⦁ قربانی کے لیے آدمی کا صاحب نصابِ زکوۃ ہونا ضروری نہیں کیوں کہ اس قید کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔
⦁ میت کی طرف سے قربانی: یہ مسئلہ اہل علم میں اختلافی ہے اور دلائل کے لحاظ سے قوی بات یہ ہےکہ میت کی طرف سے الگ جانور کی قربانی کے متعلق کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔ البتہ اپنی قربانی میں فوت شدگان کو اور دیگر قربانی نہ کرنے والوں کو دعا میں شامل کرنا ثابت ہے۔بعض لوگ رسول اللہﷺ کی طرف سے قربانی کرتے ہیں جب کہ یہ عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
قربانی کرنے والوں کے اوصاف:
⦁ قربانی کرنے والا عقیدہ توحید پر پختہ ہو، جس کے عقیدے میں شرک ہو اس کے اعمال مردود ہیں۔
⦁ خلوص سے قربانی کی جائے ، رضائے الٰہی مقصود ہو ، ریاء کاری سے اعمال برباد ہوتے ہیں ۔
⦁ رزق حلال ہو ۔
⦁ سنت پر کاربند ہو۔
قربانی کے جانور اور ان کے اوصاف:
⦁ قربانی کے جانور ’’بھیمۃ الانعام ‘‘ یعنی بھیڑ ، بکری، گائے، اونٹ (مذکر و مؤنث ) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر حلال جانوروں کی قربانی درست نہیں کیوں کہ وہ ثابت نہیں۔
⦁ بھینس کی قربانی میں علماء کا اختلاف ہے لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس کی قربانی سے بچا جائے اور جو نبی کریمﷺ کے دور میں جانور ذبح ہوئے وہ میسر ہیں تو انہی کی قربانی کی جائے۔
⦁ قربانی کے لیے صحت مند ، خوب صورت، موٹے تازے جانوروں کا انتخاب کیا جائے۔(بخاری: 5565، ابوداؤد:2796) بخاری قبل حدیث :5553
⦁ سینگوں اور بغیر سینگوں ولے ، خصی ، غیر خصی جانوروں کی قربانی جائز ہے ۔ (ابوداؤد :2796، 2792، بخاری :5564)
⦁ حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے ، اس صورت میں بچہ زندہ نکل آئے تو اسے الگ ذبح کیا جائے گا، اگر مر چکا ہو تو ماں کا ذبح ہی اس کے لیے کافی ہے ، کسی کا دل چاہے تو وہ حلال ہے کھایا جا سکتا ہے۔(ابوداؤد :2827)
⦁ گائے میں 7 اور اونٹ میں 10 حصوں کی گنجائش ہے ایک شخص ایک سے زائد حصوں میں بھی شریک ہو سکتا ہے۔ (ترمذی :1511)
⦁ بعض لوگ گائے یا اونٹ میں کچھ حصے عقیقے کے ڈالتے ہیں جب کہ عقیقے میں گائے یا اونٹ ذبح نہیں کیے جا سکتے ۔ (بیہقی : 19280) اور جو لوگ اس کے متعلق روایات پیش کرتے ہیں وہ ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود اور ناقابلِ حجت ہیں۔
⦁ قربانی کا جانور کم از کم دو دانتا ہو اس سے کم عمر کی قربانی جائز نہیں ، مجبوری کی صورت میں ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ذبح کیا جا سکتا ہے۔ (مسلم :1963)
⦁ قربانی کا جانور عیوب سے پاک ہو، واضح لنگڑا ، واضح کانا، واضح کمزوری و نقاہت والا، کان کٹا (چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو) کان میں سوراخ ہونا سب عیوب ہیں۔ ان کی قربانی درست نہیں۔ (ابوداؤد:2803، نسائی :4381)
قربانی کے ایام و اوقات:
⦁ قربانی کے تین دن اتفاقی ہیں چوتھے دن کی قربانی کے لیے دیکھیں صحیح الجامع الصغیر :4537۔
⦁ 10 ذوالحجہ کا دن قربانی کا افضل دن ہے۔ نبی ﷺ کا معمول بھی 10 ذوالحجہ کو قربانی کرنے کا تھا ۔ (بخاری :9690)
⦁ رات کے وقت بھی قربانی جائز ہے۔ (نیل الأوطار : 5/133)
⦁ قربانی کا وقت عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اگر کسی نے پہلے قربانی کر دی تو وہ قربانی نہیں ہو گی اسے اگر استطاعت ہو تو دوسرا جانور قربانی کے طور پر ذبح کرنا چاہیے۔(بخاری : 5563-5561)
⦁ بعض مقامات پر نمازِ عید کے وقت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا جب قربانی کے جانور میں حصہ ڈالنے والے سب کے سب لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں تو پھر جانور ذبح کرنا چاہیے اور جس حصے دار نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو اور اس کا جانور ذبح ہو گیا ہو تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔
ذبح کے مسائل:
⦁ صاحب قربانی کا خود جانور ذبح کرنا افضل ہے ، البتہ ذبح کرتے ہوئے کسی دوسرے سے تعاون لینا جائز ہے۔ (بخاری:5565، مسند احمد:5/373)
⦁ صاحبِ قربانی کا موقع پر ہونا ضروری نہیں۔ (بخاری: 5559، 5548، مسلم:1218)
⦁ عورت بھی جانور ذبح کر سکتی ہے۔ (بخاری تعلیقا ً قبل حدیث :5559)
⦁ ذبح کرتے وقت جانور کا منہ قبل رخ کیا جائے (ابوداؤد :2795)
⦁ جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کرنا جائز ہے ۔ (ابوداؤد :1765)
⦁ جانوروں کو اچھے طریقے سے ذبح کیا جائے اور انھیں تکلیف سے بچایا جائے۔ (مسلم :1955)
⦁ جانور کو قبل رخ لٹا کر یہ دعا پڑھیں ’’ انِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا مُسْلِماً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ۔‘‘ ’’میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ، یک سو اور فرماں بردار ہوتے ہوئے اور میں شرک کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت رب العالمین ہی کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرتا ہوں اور اللہ سب سےبڑا ہے۔ اے اللہ یہ قربانی تیری ہر طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔‘‘ (ابوداؤد : 2795، مسند احمد : 3/375) اس کے بعد کہے ’’ اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی ‘‘ اے اللہ ! تو میری طرف سے اور میرے اہل خانہ کی طرف سے قبول فرما۔ (بخاری: 7399، مسلم :1967)
قربانی کا گوشت:
⦁ قربانی کا گوشت خود کھائیں، فقراء و مساکین ، ہمسائیوں اور رشتے داروں کو کھلائیں۔ (الحج :27) چاہے زیادہ خود کھالے یا دوسروں کو کھلا دے ، ضرورت کے تحت اس کی صوابدید پر ہے۔
⦁ کسی کافر کو ، عیسائی کو تالیف قلب کے لیے قربانی کا گوشت دیا جا سکتا ہے ۔ (فتاوی اسلامیہ : 2/427)
⦁ قربانی کا گوشت فروخت کرنا یا قصاب کو بطورِ اجرت دینا جائز نہیں۔ (مسلم: 1317)
قربانی کی کھالیں:
⦁ کھالوں کا بھی وہی مصرف ہے جو گوشت کا ہے۔ لہٰذا قربانی کی کھالیں ذاتی استعمال میں لانا، صدقہ کرنا یا ہدیہ کرنا جائز ہے۔ (مسلم :1971)
⦁ قربانی کرنے والے کا کھال فروخت کرنا جائز نہیں بلکہ وہ صدقہ کرے گا اور جس کو صدقے کے طور پر دی گئی ہے وہ فروخت کرسکتا ہے۔ (مسلم:1971)
⦁ قصاب کو کھال اجرت میں دینا جائز نہیں۔(مسلم:1971)
صاحب قربانی پر پابندی:
⦁ قربانی کرنے والا ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد جس کے کسی حصے کے بال نہیں کٹوائے گا اور نہ ہی ناخن کٹوائے گا حتی کہ قربانی کر لے۔ (مسلم:1977)
⦁ کنگھی کرنے سے غیر ارادی طور پر بال گر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
⦁ جو شخص قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو اس پر بال کاٹنے کی کوئی پابندی نہیں البتہ وہ اگر عید کے دن اپنے بال کاٹ لے ، ناخن تراش لے، مونچھیں کاٹ لے، زیر ناف بال مونڈ لے تو اسے بھی مکمل قربانی کا ثواب مل جائے گا۔(ابوداؤد :2789)

Leave a reply