مزید دیکھیں

مقبول

ڈیرہ غازی خان : میڈیسن اسکینڈل،حکومتی یوٹرن، دباؤ یا پردہ پوشی؟ اصل مجرم کون؟

ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی رپورٹ)میڈیسن اسکینڈل،حکومتی یوٹرن،...

سرفراز احمد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کےٹیم ڈائریکٹر مقرر

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فرنچائز کوئٹہ گلیڈی...

کراچی میں گھر کی چھت گرنے سے6 بچیاں جاں بحق

کراچی کے علاقے سائٹ سپر ہائی وے جنجال...

یوکرین کے صدر نے ٹرمپ سے معافی مانگ لی

واشنگٹن: امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مندوب...

سفرِ محمود سے سفر آخرت تک تحریر:ساحل توصیف

۔سفرِ محمود سے سفر آخرت تک۔
۔۔۔۔۔۔۔ساحل توصیف۔۔۔۔۔۔
ِوہ وقت نہیں آنے والا ساحل
اگر وقت کوکوئ روک لیتا تو میں زمانے کو ہی روک لیتا۔۔
آج سے دوسال پہلے میرے ابو حج کی سعادت کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے تھے۔اس سے پہلے اتنے بیمار ہو گئے تھے کہ ہم نے اةن کے زندہ رہنے کی آس چھوڑ دی تھی مگر اللہ کا کرنا کچھ اور تھا اور بلکل صحتیاب ہو گئے تھے پھر وہ دن بھی آگئے اللہ نے اُنہیں حج کرنے کی توفیق بھی بخش دی ۔میرے ذہن میں اب بھی وہ دن وہ پَل یاد ہیں جب ائرپورٹ جانے کے دوران بس میں میرے ابو ہاتھ ہلا ہلا کہہ رہے تھے کہ اب گھر جاؤ جیسے کہ رب نے ان کا انتخاب مکہ مکرمہ کے طواف کے لئے کیا تھا مدینہ سے آنے والی ہوائیں اُن کے استقبال کے لئے رب نے مقرر کی تھی اور مکہ مکرمہ کی وادیاں اُن انتظار میں بیٹھی ہیں ایسے خوش تھے جیسے رب نے بُھلاوا بیجا تھا کہ آ اب تجھے میں اپنی پاک سرزمیں کی سیرکرا کے پھر اپنے پاس بُلا لونگا۔میں بھی بہت خوش تھا کیونکہ میرے ابو کی دیرینہ خواہش تھی کہ کب میرے نصیب میں رب کے گھر کی زیارت نصیب ہو ۔وہ تو بہت خوش تھے اور دوسری طرف میری آنکھوں میں آنسو بھی رواں تھے کیونکہ میں زندگی میں اپنے ابو بہت جدجہد کرتے دیکھا تھا ۔بہت محنت ومشقت کرکے اُنہوں نے ہمیں پالا تھا اُن کی محنت وجدوجہد کا یہ عالم تھا کہ دن میں کبھی کبھار آرام فرماتے تھے۔اب وہ دن بھی آگئے تھے کہ اُنہیں سفر محمود پے روانہ ہونا تھا اور ہاتھ ہلا کر کہہ رہے تھے اب گھر جاؤ۔مکہ مکرمہ پہچتے ہی دوسرے دن جب فون کیا تو تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہو رہے تھے جوں جوں دن گُزرتے گئے وہ ہمیشہ فون پے بتاتے تھے کہ یہاں جتنا سکون مجھے ملتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اب گھر کبھی نہ آؤ پر جب فریضہ انجام دینے کے بعد گھر وآپس آگئے تو بار بار کہہ رہے تھے کہ میں پھر سے حج بیت اللہ کرنے کے لئے جانا چاہتا ہوں کیونکہ اُنہیں اُس سر زمیں سے اتنی محبت تھی کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ۔کیونکہ اُنہیں وہاں بہت سکون ملا تھا کیوں نہیں ملتا آخر انسان جس سے محبت کرتا ہے اُس کے پاس سکون قلب بھی ملتا ہے۔اور ہمیں کیا پتہ تھا کہ سفر محمود سے آکر سفر آخرت اُن کے انتظار میں بیٹھی ہیں ۔سفر محمود پے جاتے وقت اُن کی خوشی دیدنی تھی ۔اور سفر آخرت پر جاکے پُرسکون نیند میں سوئے تھے جیسے کہہ رہے تھے اب رب سے ملنے کا وقت ہے میری زندگی کی سانسیں یا مہلت اس دُنیا سے ختم ہو چُکی ہیں اب رب سے ملنے کاوقت ہے پُرسکون چہرہ جس کو میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک نہیں بُھلا سکتا
ہمیں بتا رہا تھا اب مجھے چین کی نیند سونے دو کیونکہ زندگی میں بہت سی سختیاں برداشت کی ہیں بہت سے دُکھ سہے ہیں بہت سی مشکلاتوں کا سامنا کیا ہیں بہت محنت اور جدوجہد کی ہیں میں نے اب میں پُرسکون ہو کر سونا چاہتا ہوں میں اُس ابدی زندگی کی طرف روانہ ہو رہا ہوں جہاں نہ کوئ غم ہو گا نہ کوئ پریشانی۔وہ تو پُرسکون ہو کر سو گیا اللہ کی رحمتوں میں مگر مجھے بے آسرا کر گیا مجھے تو اب ایسا لگ رہا ہے کہ اوپر چھت آسمان ہے آسمان تک مجھے کوئ آسرا دکھائ نہیں دیتا ہے ۔
اب تو زندگی اُداس سی لگنے لگی ہے زندگی کی رونقیں ختم سی ہو گئ ہیں کیونکہ بچپن سے ماں اور باپ دونوں کا پیار ابو سے ہی ملتا تھا ماں تو بچپن میں ہی داغ مفارقت دے چُکی تھی اب تو ابو ہی ایک سہارا تھا وہ بھی داغ مفارقت دے چُکے ہیں ۔۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو اس دُنیا میں آتا ہے اُس کو یہاں سے جانا پڑتا ہے مگر کچھ یادیں کچھ باتیں انسان کے روح کو اثر انداز کرتی ہیں ۔میرے ابو تو چلے گئے مگر یادیں ایسی چھوڑ گیا کہ اُنہیں زندگی میں بُھلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اُن کی جدوجہد بھری زندگی کبھی بھولے سے بھی نہیں بھول سکتے۔میرے لئے وہ ایک جہاں تھا ایک دُنیا تھا کہ جس سے میں روٹھتا تھا اور وہ مناتا تھا ۔
بچپن میں ۔میں ایک بار روٹھا تھا رات کے بارہ بجے تک میں میں ایک ڈرم میں چُھپا ہوا تھا اور وہ مجھے ڈھونڈ رہے تھے جب میں نا ملا تو وہ تھکے ہارے آکے کچن میں بیٹھ گئے تبھی مجھے بھوک لگی اور میں اُن کے سامنے نمودار ہوا ۔اُنہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور دیر تک چومتے رہے۔ تب جاکے میری امی اور ابو نے میرے ساتھ ساتھ کھانا کھایا اور پھر سو گئے۔ ایسے ہی بہت سارے واقعات جو میرے قلب وذہن کو بہت اثر انداز کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی یادیں ذہن سے جانے کا نام ہی لے رہے ہیں اور مجھے بہت تڑپا رہے ہیں اب بس اللہ سے یہ ہی دُعا ہے کہ اُنہیں جنت کے باغوں میں سے ایک باغ عطا کرے بس یہ خواہش ہے کہ جب بھی آخرت میں اُن سے ملاقات ہو تو وہ خوشی خوشی ہمارا استقبال کرے۔۔۔
۔آسمان اُن کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔۔۔