بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیرقانونی اور غاصبانہ قبضہ کے ٹھیک ایک سال مکمل ہونے پر لیفٹیننٹ گورنر گریش چندر مرمو کے اچانک استعفے کے سرپرائز پر بھارتی ایوانوں میں ابھی تک ہلچل مچی ہوئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں باغی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق مرمو نے اپنی کرسی اس لئے گنوا دی کیونکہ وہ نوکر شاہی میں دو مضبوط گروہوں کے مابین بڑھتےہوئے تنازعہ کی جانچ نہیں کرسکے۔ جموں و کشمیر کے ایک اعلی ترین بیوروکریٹ کے ساتھ بھی ان کا اچھا معاملہ نہیں تھا جس کی وجہ سے کشمیر میں معاملات چلانے اور بڑی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مرمو نے عوامی بھلائی کے کئی اہم اعلان کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے دباو پر مجبورا کچھ فیصلے واپس لے لیے۔ مرمو نے بیان دیا تھا کہ وادی میں انٹرنیٹ فور جی کی بحالی پرانہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن عوامی بھلائی کے حوالے سے ان کے بیان کو مودی حکومت نے اچھا نہیں سمجھا کیونکہ حکومت نے کچھ دن قبل سپریم کورٹ میں حلف نامہ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وادی میں سیکیورٹی کی صورتحال کنٹرول میں رکھنےکے لئے انٹرنیٹ فور جی کی بحالی ممکن نہیں جب کہ مرمو کے بیان سے حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ اس طرح مرمونے حال ہی میں منعقدہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اپنی تیاریوں کے بارے میں ایک متنازعہ بیان دیا جس کو مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن نے اچھا نہیں سمجھا۔ مرمو نے بھارتی سرکار کے ساتھ اختلافات کے بعد جب محسوس کیا کہ اب انہیں گورنر کے عہدے سے ہٹایے جانے کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مودی سرکار اور کشمیر میں اس کےتعینات کئے گئے بیورو کریٹس کے داو پیچ کی تاب نہیں لا سکیں گے تو عین 5 اگست کو جب بھارتی حکام خوشیاں منا رہے تھے انہوں نے استعفی دے کر دنیا بھر کے لئے یہ پیغام چھوڑا کہ بھارتی حکمران کشمیر پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لئے کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ اپنا حکم نہ ماننے والے سرکاری افسران یہاں تک کہ خود گورنر کو بھی دباو میں رکھنا چاہتی ہے۔

Shares: