بیروت : بیروت کی بحالی کے لیے 15 ارب ڈالرسے زائد رقم کی ضرورت ، اطلاعات کے مطابق لبنان میں حکام نے دارالحکومت بیروت میں دھماکوں سے بندرگاہ سمیت دیگر تباہ شدہ مقامات کو مکمل بحال کرنے کے لیے 15 ارب ڈالر تک کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق لبنان کے اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے بتایا ہے کہ 15 ارب ڈالر کے لگائے گئے تخمینے میں نقصانات کی لاگت اور متاثرین کو ادا کیے جانے والے معاوضے کی رقم بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ لبنان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے اور ملک میں کھانے پینے کی اشیا حد درجہ مہنگی ہیں۔ مقامی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں بہت گر چکی ہے اور 16 ہزار لیرا کا ایک ڈالر مل رہا ہے۔

بیروت کی بندرگاہ دھماکوں میں تباہ ہونے سے بدترین بحران سے دوچار معیشت کو مکمل تباہی سے دچار کر سکتی ہے۔عرب نیوز کے مطابق لبنان کے صدر کے مشیر خزانہ چربل کورداہی کا کہنا ہے کہ ملک کی 70 فیصد تجارت بیروت کی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کُل تجارت کا صرف 30 سے 40 فیصد حصہ ملک کے ہوائی اڈوں اور دیگر بندرگاہوں سے ممکن ہے، جبکہ شام کے ساتھ سرحد کھولنے سے مزید 20 فیصد تجارت میں سہولت مل سکتی ہے۔

’اس کا مطلب ہے کہ کم از کم پانچ ارب ڈالر کی درآمدات ملک میں داخل نہیں ہو سکیں گی، اور دو ارب ڈالر کی برآمدات آئندہ آٹھ ماہ کے لیے بند ہو کر رہ جائیں گی۔ اس سے تقریباً چار ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔

مشیر خزانہ نے واضح کیا کہ بین الاقوامی امداد کے بغیر لبنان اس تباہی سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔لبنان کی ریلیف کونسل کے سیکرٹری جنرل محمد خیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ بیروت کی تعمیر نو کے لیے دوسرے ملکوں کی مدد درکار ہوگی۔

’ہم ہر ایک ملک کے انتہائی مشکور ہوں گے اگر وہ بیروت کے کسی بھی تباہ شدہ علاقے یا محلے کی تعمیر نو کی ذمہ داری اٹھا لے، جیسا کہ 2006 میں اسرائیلی حملے کے بعد کیا گیا تھا۔‘

محمد خیر نے بے گھر افراد کی رہائش کے بندوبست کے لیے بھی اپیل کی جو لبنان کی حکومت خود مہیا کرنے کی اہل نہیں ہے۔دھماکے کے باعث ہزاروں زخمی اور تقریباً 3 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

بیروت کے گورنر مروان عبود نے ضروری نقصانات کا تخمینہ 3 سے 5 ارب ڈالر کے درمیان لگاتے ہوئے عالمی برادری اور عوام سے مدد کی اپیل کی ہے۔

صحت کے شعبے سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں طبی ساز و سامان کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بالخصوص سرجری میں استعمال ہونے والے آلات کی قلت ہے۔

Shares: