"توڑ اُس دستِ جفا کش کو یا رَبّ۔۔۔”
تحریر مقدس کشمیری
کہانی ایک ہی مگر کردار جدا جدا وقت اور حالات کے ساتھ ظالم اور ظلم کے زوایے بدلتے رہے مگر مظلوم بے دست وپا ایک کشمیر ہی رہا اس کشمیرکے ہر گھر اور گھر کے ہر فرد کی ایک جیسی کہانی ہے اور ایک جیسا مشترکہ دکھ ماؤں کا بیٹےکھو جانے کادکھ، بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے کا غم، جوان بیٹوں کے تڑپتے لاشوں پہ آنسوں بہاتی بوڑھی آنکھیں اور ان انکھوں میں صدیوں سے آبادبے بسی سب دن بدن بڑھ رہا ہے اور ان کا مداوا کم ہو رہا ہے بھارتی فوج کے جور و ستم کی داستانیں اب چنار کے پتے پتےپر رقم ہو چکی مگر وہ آواز ہوا کے دوش پہ نہیں سنائی دیتی جس میں مظلوم کی داد رسی ہو۔
کہتے ہیں کہ ظالم کو روکنے والا کوئی نہ ہو تو ظلم ہر شب کے بعد بڑھتا ہے پھر ظالم کے ہتھکنڈے بھی اپنے ہوتے اور قانون بھی اپنے یہی کچھ کشمیریوں نصیب ٹھہرا!
بھارتی فوج جس کو جب چاہے جہاں چاہے گولی مار کر شہید کردیتی ہے اور اسے حریت پسند کا نام دے دیا جاتا ہے ستم کی یہ داستانیں روز رقم ہوتی ہیں اور پرانی ہو جاتی ہیں اگلے روز کا سورج ایک نئی انہونی کو جنم دیتا ہے جموں کے ضلع راجوری کے گاؤں کے رہائشی تین نوجوان روزگار کے سلسلے میں ضلع شوپیاں میں جاتے ہیں، کراۓ پر مکان حاصل کر کے رہائش اختیار کرتے ہیں، اور وہاں مزدوری شروع کر دیتے ہیں،
اسی دوران 18 جولائی کو بھارتی درندہ صفت فوج کو ضلع شوپیاں کے گاؤں ایمشی پورہ میں حزب سے وابستہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کی خبر ملتی ہے،
بھارتی فورسز، سی آر پی ایف،66راشٹر رائفلز اور پولیس کے خصوصی دستے ان کے خلاف مشترکہ آپریشن تشکیل دیتے ہیں، اور چند گھنٹوں میں حریت پسندوں کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ پل بھر ہندوستان میں کہرام مچ جاتا ہے ہر ٹی وی سے زہر اگلا جانے لگتا ملی ٹنٹ دہشت گرد خطرناک آتنک وادی اور جانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا کہ بھارتی فوج نے مار دیئے دنیا کو تصویر کا ایسا رخ دکھایا جاتا کہ گویا یہ افراد بھارت کو تباہ کرنے چلے تھے۔
انڈین میڈیا پر یہ خبر چلتی ہے کہ "حزب المجاہدین سے وابستہ تین خطرناک عسکریت پسند بھارت کی بہادر سینا نے مارگرائے ہیں۔ اور بار بار چلتی اس خبر میں سب کچھ چھپا دیا گیا کہ بے چارے مارے جانے والے اصل میں تھے کون؟
شناخت بتائی جاتی تو بزدل فوج کی بہادری کا پول کھل جاتا یوں
بھارتی فوج لاشیں بھی لواحقین کے حوالے نہیں کرتی، اپنے طور پر ہی دفنا دیتی ہے، ادھر بوڑھے والدین کے سہارے جو ان کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے گھر والوں سے جدا تھے
وہ مزدور نوجوان روزگار کے سلسلے میں شوپیاں کے علاقے میں رہائش پزیر تھے، ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ کافی دن منقطع رہتا ہے، گھر والے یہی سمجھتے ہیں کہ شائد سروس ڈاؤن ہیں، یا نیٹ ورک کا مسئلہ ہے، ستم ظریفی دیکھیئے کہ اک قیامت گزر گئی مگر فوج نے اپنے مکر پر پہرہ جماۓ رکھا،چنددنوں بعد ان نوجوانوں کے اہلخانہ تک 18 جولائی کو مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصاویر پہنچتی ہے تو تب انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو ہمارے جگر پارے تھے، 26 سالہ امتیاز احمد، 21 سالہ 21 سالہ محمد یوسف اور 15 سالہ محمد ابرار تھے، جنہیں بھارتی فوج نے شوپیاں سے اغواہ کرکے جعلی انکاؤنٹر میں عسکریت پسندوں کا ٹیگ لگا کر شہید کردیا، 18 جولائ گزرا ایک داستان غم اور بڑھا گیا آنسو دکھ اور کرب تین گھروں کا مقدر ٹھہرا بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت پانے والے بے قصوروں کا
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ بھارتی فوج نے معصوم کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا ہو، بلکہ بھارتی فوج کا تو وطیرہ ہی یہی ہے کہ آئے روز کشمیریوں کے گھروں میں چھاپے مار کر، ماؤں بہنوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور گھروں کا قیمتی سامان لوٹ کر لے جانا، یا توڑ پھوڑ کرنا، اور مردوں کو چاہے وہ بچے ہوں، بوڑھے ہوں یا نوجوان انہیں اغواء کر کے لے جانا،بعد میں عسکریت پسندوں کا ٹیگ لگا کر جعلی مقابلوں میں شہید کر دینا،
کون سا جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب بھارتی فوج نے نہ کیا ہو،
ابھی کچھ دن پہلے ہی بھارتی فوج نے فریڈم فائٹرز کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد اپنی ذلت مٹانے کے لیئے، سوپور میں تین سالہ نواسے کے ساتھ سفر کررہے بزرگ کو گاڑی سے نکال کر گولیوں کا نشانہ بنایا، بعد میں تین سالہ عیاد کو شہید نانا کی لاش پر بٹھا کر فوٹو شوٹ کرتے رہے،
اس سے چند دن پہلے اننت ناگ کے ضلع کولگام میں باپ کے ساتھ دکان پر جارہے دو بہنوں کے اکلوتے بھائی، چھ سالہ نہان احمد کو گولیوں کا نشانہ بنا کر، اس ماں کی گود اجاڑ کر جس نے سات سال کی دعاؤں، التجاؤں کے بعد بیٹے جیسی نعمت لی تھی، اپنی درندگی کا ثبوت دیا۔
کبھی بھارتی فوج دوارن معرکہ اپنی بہادری کا ثبوت دینے کے لئے کشمیری نوجوانوں کو "ہیومن شیلڈ” کے طور پر استعمال کرتی ہے تو کبھی پاکستانی راہنماؤں کے بیان کو واٹس ایپ سٹیٹس لگانے کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
کیا کشمیر میں بسنے والے انسان نہیں؟
یا وہ انسانی حقوق کے حقدار نہیں؟
کون انصاف دلاۓ گا امتیاز، یوسف ابرار کے لواحقین کو؟
کون نہان احمد کی ماں کا درد محسوس کرے گا؟
کون تین سالہ عیاد کے ذہن میں نقش ہوچکے نانا کے تڑپتے لاشے اور بھارتی فورسز کے درندگی کے نقوش کو مٹاۓ گا؟ کیا ظلم کی یہ داستانیں یونہی رقم ہوتی رہیں گی اور ستم کی کہانیں کشمیر کے گھر گھر پھیلتی رہیں گی۔۔۔۔؟؟
توڑ اُس دستِ جفا کش کو یا رَبّ
جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا۔۔۔!!!