سعودی عرب میں طلاق کی شرح‌ خطرناک حد تک بڑھ گئی

0
58

سعودی عرب میں طلاق کی شرح‌ خطرناک حد تک بڑھ گئی

باغی ٹی وی :سعودی عرب میں کورونا لاک ڈاون کے بعد طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن میں طلاق کی شرح میں اضافے کے ساتھ شادیوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔خانگی امور سے متعلق کیے جانے والے سروے میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مملکت میں 5 برس کے دوران طلاق کے فی گھنٹہ سات واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

سعودی وزارت انصاف کے مطابق اپریل میں 135 جبکہ جولائی میں 4 ہزار طلاق کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے جبکہ جولائی میں 53 فیصد طلاق کے سرٹیفکیٹ ریاض اور مکہ میں جاری کیے گئے.سعودی وزارت انصاف کے مطابق جولائی میں 19 ہزار جوڑے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور یہ تعداد گزشتہ سال اسی مہینے کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ ہے۔
سعودی نجی ٹی وی الاخباریہ کی جانب سے پیش کیے گئے پروگرام میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کو سب کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا گیا۔
پروگرام میں شادی میں کیے جانے والے اخراجات کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متوسط شادی کا خرچ 60 ہزار ریال ہوتا ہے جو کہ ‘شادی بینک’ کی جانب سے بطور قرض مقرر کیا جاتا ہے۔
طلاق کی صورت میں معاشرے کو جو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تخمینہ تین ارب ریال سالانہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ سروے میں مذکورہ مالی خسارہ شادی کے لیے بینک سے لیے گئے قرض کی رقم کے حساب سے لگایا گیا ہے۔

سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی خسارے کا اوسط اندازہ لگایا گیا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان ان خاندانوں کا ہوتا ہے جو ان حالات سے گزرتے ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں خاتون اور مرد کی نفسیات اور ان سے منسلک افراد بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔
سالانہ سروے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں شادی کے رجحان میں کمی جبکہ طلاق کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ایک خطرناک علامت کے طور پر مانا جاتا ہے اس کا تدارک معاشرتی طور پر کرنا لازمی ہے۔
طلاق کے رجحان کو کم کرنے کے لیے فکری سوچ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سعودی عرب میں محلے کی سطح پر (کونسلرز) مصالحتی کمیٹیاں بھی قائم ہیں، جہاں فریقین میں صلح کی کوشش کی جاتی ہے اگر صلح کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو نوبت طلاق تک نہیں آتی۔
اس حوالے سے ایک نفسیاتی ماہر کا کہنا تھا کہ ‘طلاق ایک ایسا فعل ہے جس سے فریقین کو اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ طلاق محض دو افراد میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات دو خاندانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں’۔
ایک اور معاشرتی ماہر کا کہنا تھا کہ ایسے جوڑے جو صاحب اولاد بھی ہوں ان میںعلیحدگی ہونے کی صورت میں بچوں کی نفسیات مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے ، علیحدہ ہونے والے خاندان کے بچے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو انکے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو تا ہے

Leave a reply