کس کس کے ہاتھ پرلہوتلاش کروں؟؟؟ بقلم:عبدالرحمن ثاقب سکھر

کس کس کے ہاتھ پرلہوتلاش کروں؟؟؟

بقلم:-عبدالرحمن ثاقب سکھر

پاکستان میں غریب کو انصاف نہیں ملتا بلکہ انصاف کے حصول کے لیے عمر نوح اور قارون کے خزانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو غریب برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جلتا رہتا ہے لیکن اس کی شنوائی کی تاریخ ہی نہیں اتی۔ انگریز نے ہمیں ایسا قانون بنا دے دیا ہے جو امیر اور بالا دست طبقے کے لیے موم کی ناک اور غریب کے لیے وبال جان ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اس قانون کو تبدیل کرکے اسلام کا قانون قصاص و دیت نافذ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں علم ہے کہ خالق کائنات کا دیا ہوا قانون سب کے لیے برابر ہے اس میں امیر و غریب، چھوٹے بڑے، عام و خاص کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ جس ہستی پر یہ قانون الہی نازل ہوا تھا اس نے فرمایا تھا کہ:
اگر سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پہلی قوموں کی تباہی اس لیے ہوئی کہ جب معاشرے کا کوئی بڑا شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کم سی غریب سے جرم ہوتا تو اس پر حد قائم کردی جاتی۔
آج وطن عزیز میں قانون امیر اور دولت مند افراد کے لیے موم کی ناک بن چکا ہے۔ عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا۔
2017 میں کویٹہ میں دن دیہاڑے ٹریفک کنٹرول کرنے والے عطاء اللہ کو گاڑی کے نیچے کچل کر قتل کرنے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا گیا۔ یہ انگریز بہادر کا قانون ہے۔ اس واقعہ کی فوٹیج اور ویڈیو بطور ثبوت موجود ہے لیکن پھر بھی قاتل کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا گیا۔ اگر اس غیر شرعی و غیر اسلامی قانون کے بجائے اسلامی قانون سپریم لاء ہوتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا یا پھر مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کرتا لیکن ہمارے سیاہ ست دانوں اور ایلیٹ کلاس کو یہی انگریزی قانون سپورٹ کرتا ہے لہذا وہ اسلامی قوانین کو نافذ نہیں ہونے دیتے۔
اس سانحہ کے علاؤہ بھی کبھی مظلوموں کو انصاف نہیں ملا۔
آپ بلدیہ ٹاؤن کراچی کا سانحہ دیکھ لیں سینکڑوں افراد کو زندہ جلا کر راکھ کردیا اور ان کے ورثاء روتے پیٹتے رہ گئے لیکن قانون کی دفعات نے مقتولین کو انصاف نہ ملنے دیا۔
سانحہ ماڈل ٹاون لاہور ایک اہم سانحہ ہے جس کے نام پر عمران نیازی اور طاہر القادری سیاست کرتے رہے اور مقتولین کے ورثاء کو مکمل انصاف دلانے کے بلند وبانگ دعوے کرتے رہے لیکن جیسے ہی اقتدار کی ہما جناب عمران نیازی صاحب کے سر پر بیٹھی وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس کے مقتولین کو بھول گئے۔ اور مولانا طاہر القادری کو پاکستان کا راستہ بھول گیا کیونکہ اس وقت بھی ان کا مقصد مقتولین کو انصاف دلانا مقصود نہ تھا بلکہ ان کے خون پر سیاست کرنا مقصود تھی۔
سانحہ ساہیوال جناب عمران نیازی صاحب کے دور اقتدار میں ہوا اور موصوف نے بیان جاری کیا کہ میں بیرون ملک کے دورے سے واپس آجاؤں پھر انصاف دلاؤں گا۔ انصاف نہ ملنا تھا اور نہ ہی مل سکا۔ بلکہ سانحہ ساہیوال کے پولیس افسران کو ترقیاں بھی مل گئیں۔
اسی طرح سے ایک معزور نوجوان کو پولیس نے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کردیا ملک میں شور اٹھا سوشل میڈیا پر کمپینیں چلیں پھر حسب سابق و عادت انصاف کا بول بالا کرنے کے دعوے کیے گئے لیکن اس مقتول کو بھی انصاف نہ مل سکا۔
مولانا سمیع الحق صاحب مرحوم پاکستانی سیاست کا ایک بڑا نام تھا محفوظ ترین اور ان کی اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کے بہانے انہیں قتل کردیا گیا پھر حسب سابق نوٹس بھی لے لیا گیا لیکن اس عالم دین کا خون بھی رائیگاں چلا گیا اور انصاف حاصل نہ کرسکا۔
ہمارے ملک کا قانون صرف صاحب حیثیت لوگوں کو ہی انصاف فراہم کرتا ہے جو اس انصاف کو دولت کے بل بوتے پر خرید لیں ورنہ ثبوت ہونے کے باوجود بھی پولیس کانسٹیبل عطاء اللہ کے قاتل مجید خان اچکزئی کو بری کردیا جاتا ہے۔

Comments are closed.