لاہور:ایک نوٹفکیشن کی مار ہوں جب بلائیں گے اسلام آباد چلا جاؤں گا،آئی جی پنجاب انعام غنی کی کھری گفتگو،اطلاعات کے مطابق انسپیکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعام غنی نے اپنی تعیناتی پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازم ہوں جہاں حکومت کہے گی وہاں چلا جاؤں گا۔

آئی جی پنجاب کا چارج سنبھالنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہے پالیسی بنانا اور ہمارا کام ہے اس پر عمل کرانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور کوشش ہوگی کہ پولیس کے رویے کو بہتر کریں۔انہوں نے کہا کہ ‘سابق آئی جی شعیب دستگیر نے اچھی ٹیم بنائی تھی، آئندہ بھی پولیس میں تقرر و تبادلے میرٹ پر ہوں گے’۔اپنی تعیناتی کے خلاف عدالت میں درخواست پر ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔

انعام غنی کا کہنا تھا کہ ‘جنرل پولیس ایریا کی تعریف پڑھیں تو اس میں لکھا ہے کہ سارے صوبائی پولیس افسر کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے’۔

انعام غنی کا کہنا تھا کہ ‘سی سی پی او لاہور کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، اس میں وہ بہتر کارکردگی دکھائیں گے تو میں مطمئن رہوں گا اور اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو میں اور حکومت ان سے مطمئن نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے ہی تنخواہ دیتی ہے’۔

سابق آئی جی پنجاب کے سی سی پی او لاہور سے اختلافات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘سینٹرل پولیس آفس تمام افسران کا گھر ہے، یہاں بیٹھ کر اگر افسران کوئی بات کرتا ہے تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہے تاہم اگر یہ باہر نکلیں اور سڑک بلاک کریں تو ان کے ساتھ بھی ویسے ہی نمٹا جائے گا جیسے عام آدمی کو دیکھا جاتا ہے’۔

ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود کے خط کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘طارق مسعوف میرے ساتھ پڑھے ہیں، ان کا صرف رول نمبر ہی مجھ سے آگے تھا، اگر وہ مطمئن نہیں تو ہم ان کے مسئلے کو دیکھیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جہاں تک سینیئر اور جونیئر کی بات ہے، کیپٹن ظفر صاحب مجھ سے دو بیچ سینیئر تھے تاہم وہ یہاں میرے ساتھ بیٹھے ہیں اور میرے ساتھ کام کرنے کو راضی ہیں’۔آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ‘گریڈ 20 اور 21 کے افسر کسی جگہ مطمئن نہیں تو وہ شکایت کرسکتے ہیں’۔

انعام غنی نے کہا کہ ہرافسرکی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جن پرکام کی کوشش کرتاہے، میری ترجیحات میں سب سےاہم ریاست کی رٹ بحال کرنا ہے، ریاست کی رٹ میں کوئی خلل ڈالتاہےسختی سےنمٹاجائےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی سی پی اولاہوراسی طرح میرےماتحت ہیں جیسےآرپی اوز، اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتاتوصوبائی حکومت مجھ سےمطمئن نہیں ہوگی، جہاں تک میٹنگ کی بات ہے یہ سینٹرل پولیس آفس،افسران کاگھرہے، کوئی افسرباہرسڑک بلاک کرتاہےتواس کےخلاف بھی کارروائی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘سرکاری ملازم ہوں، سیکشن افسر کے ایک نوٹی فکیشن کی مار ہوں جب اسلام آباد بلائیں گے چلا جاؤں گا’

Shares: