باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں فیس بک سے گستاخانہ مواد ہٹانےاور مقدمہ کے اندراج کے لئے درخواست کی سماعت ہوئی
ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان سے تفصیلی رپورٹ پیش کر دی، چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر چینلز بنائے گئے ہیں، توہین آمیز مواد پر ان کیخلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شکایت پر ان کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے،
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے عدلیہ کے ججوں کیخلاف مواد ہو تو اسے بھی درخواست دینا ہوگی،ایک خاص ادارے کیخلاف بات ہوئی تو اس کیلئے قابل تعزیر دفعات بنا دی گئی، عدلیہ جس کے بارے میں پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہوسکتی،عدلیہ کے ججوں کیخلاف زبان درازی پر حکومت کی خاموشی کے کیا معنی ہیں،
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ از خود بھی ادارے عدلیہ کے خلاف مواد کارروائی کرسکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وفاقی حکومت اور اداروں سے ہدایات لے کر جواب دیدیں،سرکاری افسر نے عدالت میں کہا کہ سات تفرقہ بازی کے اکائونٹس بند کر دئیے، مواد ہٹانے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھا جاسکتا،
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آئی ٹی ماہر کو بلا لیتے ہیں تمام لنک چیک کرالیتے ہیں، عدالت میں غلط بیانی کرتے ہیں آپ کی کہی بات پر یقین نہیں، ایف آئی اے سے بھی رپورٹ منگوا لیتے ہیں کتنے آدمی گرفتار کیے ہیں،
چیف جسٹس لاہور ہاٸی کورٹ نے لیاقت علی چوہان کی درخواست پر سماعت کی،درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ فیس بک پر صحابہ کی شان کےخلاف مواد شئیرکیاجارہا ہے۔ہی ٹی اے اور ایف آئی اے توہین آمیز مواد شئیرکرنے والوں کےخلاف کاروائی نہیں کررہے۔ متعلقہ اداروں کی غفلت کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہے۔ توہین آمیز مواد کی اشاعت سے مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جارہا ہے۔ عدالت ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کوفیس بک سے توہین آمیز مواد ہٹانے کاحکم دے۔عدالت توہین آمیز مواد شائع کرنے والے افراد کےخلاف ایف آئی اے کو مقدمے درج کرنے کاحکم دے۔